عمرکوٹ والوں کی دکھ بھری داستان

13 اکتوبر 2014
پاکستان بالخصوص اندرونِ سندھ میں اقلیتوں کے خلاف مظالم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں، کہ انہیں لانگ مارچ کا سہارا لینا پڑا ہے۔
پاکستان بالخصوص اندرونِ سندھ میں اقلیتوں کے خلاف مظالم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں، کہ انہیں لانگ مارچ کا سہارا لینا پڑا ہے۔

کچھ دن پہلے عمرکوٹ کی ہندو کمیونٹی کے کراچی تک لانگ مارچ کی کہانی پڑھنے والوں کے لیے پیش کرنے لائق ہے۔ عمرکوٹ سے ہندو شہریوں کی ایک بڑی تعداد، جو کہ برادری کے ترجمان کے مطابق 15،000 تھی، نے سندھ کے دارالحکومت کراچی کی جانب اپنے مطالبات کی تکمیل کے لیے لانگ مارچ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے، جان و مال کا تحفظ دیا جائے، آزادی دی جائے، اور برابر کا شہری تسلیم کیا جائے۔ وہ صوبائی حکومت کو اس حوالے سے ایک یادداشت پر دستخط کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے۔

اس کے علاوہ اس لانگ مارچ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے، کہ کس طرح ریاستی ادارے مسائل کی مینیجمنٹ میں ناکام ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے شروع میں چھوٹے مسائل بعد میں دکھتے ہوئے زخم بن جاتے ہیں۔ ان کا تازہ ترین زخم دو ہندو تاجر بھائیوں کے قتل پر پولیس کا رویہ تھا۔ لیکن ان کے مسائل کافی عرصے سے نظر انداز کیے جارہے تھے۔ ان مسائل میں غیر مسلم برادریوں پر حملے، قتل، اغوا، مذہب کی زبردستی تبدیلی، اور عبادت گاہوں پر حملے شامل ہیں۔

حالیہ شکایت پولیس کے ہاتھوں دو لوگوں کے قتل کی تھی، جنہیں پولیس نے مقابلے میں مار ڈالا۔ ان کے لواحقین نے شکایت کی، کہ ملزم بھائیوں کو زندہ پکڑنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی، جبکہ قتل کردیے جانے کے بعد بھی کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔

لانگ مارچ کے شرکاء نے یہ مطالبات پیش کیے: اعلیٰ عدالت کے ایک جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن واقعے کی تحقیقات کرے، جس کی شرائط مقامی لوگوں سے مشاورت کے بعد طے کی جائیں، اغوا برائے تاوان اور دیگر مسائل کی گہرائی میں تفتیش کی جائے، اور مقامی افسران کی تعیناتی، خاص طور پر پولیس کے محکمے میں تعیناتیوں میں عمرکوٹ کی مقامی آبادی، جو زیادہ تر غیر مسلم ہے، کی رائے لی جائے۔

مطالبات میں تھر میں جنم لینے والے انسانی المیے کی تحقیقات پر بھی زور دیا گیا تھا، جبکہ یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت سپریم کورٹ کے جولائی 2014 کے فیصلے پر عملدرآمد کرائے، اور کیونکہ سندھ کے اقلیتی امور کے محکمے نے اقلیتوں، خاص طور پر شیڈول کاسٹ کو نظرانداز کر دیا ہے، اس لیے مسئلے کی تحقیقات کے لیے ایک باڈی تشکیل دی جائے۔

کسی بھی ہوشمند پاکستانی کو ان مطالبات سے کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ آخر کیوں ایک کمیونیٹی اتنی مجبور ہوجائے، کہ اسے اپنے مطالبات کی تکمیل کے لیے لانگ مارچ کرنا پڑے، جبکہ ان مطالبات کو روٹین کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے؟ مارچ کے شرکاء کے تین نمائندوں، سندھ کے تین وزراء، کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنرساؤتھ، ڈی آئی جی پولیس، اور ایس ایس پی کراچی ساؤتھ کے درمیان سول سوسائٹی کے دو ثالثوں کی موجودگی میں مندرجہ ذیل معاہدہ طے پایا۔

1۔ حکام دونوں تاجروں کے قاتلوں کی شناخت اور گرفتاری کم سے کم وقت میں عمل میں لانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں گے۔ 2۔ ڈی آئی جی ثناءاللہ عباسی کی تیار کردہ رپورٹ مذاکراتی کمیٹی اور لواحقین کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔ اگر رپورٹ غیر تسلی بخش ہوئی، تو نئی انکوائری کا حکم دیا جائے گا۔

3۔ لواحقین کو دو ہفتوں کے اندر معقول مالی مدد فراہم کی جائے گی۔

4۔ سی پی ایل سی کی عمر کوٹ میں برانچ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

5۔ احتجاجیوں کے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے ایک جوائنٹ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

6۔ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ احتجاجیوں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا، ڈرایا دھمکایا نہیں جائے گا، اور نا ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

جس طرح عمرکوٹ کے رہنے والے ان احتجاجیوں کے مطالبات میں کوئی غیر معمولی بات شامل نہیں تھی، اسی طرح حکومت کی جانب سے ان کو جن چیزوں کی پیشکش کی گئی ہے، وہ وہ چیزیں ہیں، جو ایک ذمہ دار حکومت کو اپنے قانون پسند شہریوں کو ضرور دینی چاہییں۔ عمرکوٹ والوں کو ان کے اس جرات مندانہ اقدام پر شاباش دینی چاہیے، لیکن یہ تب ہوا جب ان کے صبر کا پیمانہ بالکل لبریز ہوچکا تھا۔ حکام نے بھی ان کے مطالبات کو تسلیم کر کے فراخدلی کا ثبوت دیا۔

عمرکوٹ کی ہندو کمیونیٹی کو دیکھ کر آسانی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں اقلیتیں کس قدر غیر محفوظ ہیں۔ احمدیوں اور اہل تشیع پروفیشنلز کے قتل جاری و ساری ہیں، جبکہ توہین کے کیسز عجیب سے عجیب ترین شکلیں اختیار کرتے جارہے ہیں۔ پولیس ہمیشہ کی طرح نشانہ بننے والوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف جرائم میں ملوث لوگ شاید ہی کبھی پکڑے جاتے ہیں، اور اگر پکڑ بھی لیے جائیں، تو متاثرہ خاندان پر زور ڈالا جاتا ہے کہ وہ مفاہمت کر لیں۔

لوگوں کو ان کے عقائد پر سزا دینے کا تازہ ترین واقعہ کراچی میں ایک نامور اور باعزت استاد کے قتل کا ہے۔ سب سے پہلے پروفیسر شکیل اوج کے خلاف ایک فتویٰ جاری کرایا گیا۔ جس مدرسے کے نام سے فتویٰ آیا، انہوں نے اس دستاویز کو جھوٹا قرار دیا۔ ہاں یہ جھوٹی دستاویز ہوسکتی ہے، لیکن جھوٹے فتوے انہی مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جو اصلی قوانین کے ذریعے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ جو لوگ توہینِ رسالت کے قانون کا سہارا لے کر اپنے مخالفین سے بدلہ لیتے ہیں، ان کو اپنے مقاصد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کسی فتوے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لیے اس قتل کو ہم ایک غلط قتل کو جائز رنگ دینے کا ایک نیا طریقے کے طور پر لے سکتے ہیں۔

لیکن پوری صورت حال کو ناقابل برداشت اس بات نے بھی بنا دیا ہے کہ ریاست کی جانب سے مذہبی عدم برداشت کا نشانہ بننے والے لوگوں کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔ حکام غیر مسلم شہریوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو چپ سادھے دیکھتے رہتے ہیں۔ عمرکوٹ کے احتجاجیوں کی طرح تمام اقلیتوں نے سپریم کورٹ کے جون کے فیصلے کو سراہا تھا، جس میں اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے ایک فریم ورک بنانے پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتوں کی پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے۔ جب تک حکومت اقلیتوں کے حقوق کے لیے کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھاتی، تب تک بہتری کی جانب تبدیلی کی امید صرف امید ہی رہ جائے گی۔

اور آخر میں ڈاکٹر طاہر القادری کو خیبر پختونخواہ حکومت کے لائبریریز ڈپارٹمنٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، جس نے 19 یونیورسٹیوں اور انٹسٹی ٹیوٹس کو ہدایات جاری کی ہیں، کہ ان کی لکھی ہوئی تمام کتابیں اپنی لائبریریوں میں رکھیں۔ اس فیصلے کی کوئی وجوہات نہیں دی گئی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ طلباء کے لیے ان کتابوں کے فوائد کے حوالے سے بھی کوئی سوالات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں