دو آنکھوں کا بوجھ

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2014
— پینٹنگ www.boboart.com.au
— پینٹنگ www.boboart.com.au

میں جہاں کہیں جاتی ہوں، دو آنکھوں کا بوجھ میرے کندھوں پر ہوتا ہے۔ یاسمین آزادے نے کہا۔ گول چہرہ، بلوری آنکھوں والی یاسمین ڈھلتی عمر کی سخت کوش خاتون ہے۔ عرصہ ہوا اس نے اپنے عاشق کا ساتھ چھوڑا اور اپنی بیٹی کے ساتھ سویڈن میں رہتی ہیں۔ کبھی کبھی جب وہ رومانوی موڈ میں ہوتی ہیں تو خود کو اطالوی ہیروئن تصور کرنے لگتی ہے۔ ان ساعتوں میں وہ ڈھلتی عمر کی پژمردہ سخت عورت نہیں بلکہ تہران یونیورسٹی کی طالبہ نظر آتی ہیں۔

انقلاب کے خواب آنکھوں میں سجا کر یزد سے سیستان بلوچستان تک پہنچنے والا قنبر انورے یاسمین آزادے کی خوشگوار رفاقتوں کا گواہ ہے۔ بڑی مدتیں گزرتی تھیں جب یاسمین سویڈن سے قنبر تک پہنچ جاتی تھیں۔

قنبر آج کل اوسلو ناروے میں ٹیکسی چلاتا ہے۔

یاسمین اتحادیہ کمیونستہای ایران کی مرکزی کمیٹی کی رکن تھیں۔

پارٹی نے ان کے ذمے جماعت کی تاریخ لکھنے کا کام لگایا۔ وہ سوچتی رہیں؛ کیوں نا پارٹی کی سیاسی تاریخ کو ٹالسٹائی کے شاہکار ناول 'جنگ و امن' کی طرز پر لکھا جائے۔

'تہران یونیورسٹی میں 70 ء کی دہائی کے اواخر کے دن تھے۔ کچھ ہفتوں بعد لوگ سڑکوں پر نکلنے والے تھے۔ حمید سیاوش، اپنے وقت کے ایرانی طلباء کا لینن لیکچر دے رہا تھا'، یاسمین نے کہا۔

'لیکچر دیتے ہوئے کافی ساعتیں جب گزر جائیں، تو ان کو سگریٹ کی طلب ہوتی ہے۔ وہ فوجی جیکٹ کی جیب سے ونستن سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ منتخب کرتے ہیں پر ان کے پاس سگریٹ جلانے کو لائٹر نہیں۔ وہ سامنے والی صفوں کی جانب دیکھ کر لائٹر کا اشارہ کرتے ہیں۔ ایک طالبہ گویا اسی انتظار میں تھی اور فوری طور پر ان کو لائٹر پیش کردیا۔ کتنے دن گزر گئے پر میں ہر دن اس لڑکی کو فخر سے یہ کہتے ہوئے سنتی تھی کہ حمید سیاوش نے اس سے لائٹر لے کر سگریٹ جلائی تھی'۔ یاسمین نے مزید بتایا۔

'پیرس سے 60 کی دہائی کی شورش میں ماؤازم کا درس لے کر تہران پہنچنے والے کامریڈوں میں نظریہ دان حمید سیاوش بھی شامل تھا۔ ان کی مدد کے بغیر پارٹی کی تاریخ لکھنا ممکن نہیں'، یاسمین نے سوچا۔

یاسمین حمید سیاوش کو فون کرتی ہے۔ ان کو 70ء کی دہائی سے خمینی دور حکومت تک کا شب خون یاد ہے جب پارٹی تتر بتر ہوگئی تھی۔ وہ 60ء کی دہائی سے تاریخ لکھنا چاہتی ہے۔ جو شروع کے انقلابی لوگ تھے؛ ان میں حمید سیاوش ہی زندہ رہ گئے تھے۔ اور اب وہ اسٹاک ہوم کی کسی سڑک پر گلفروشی کی دکان قائم کرکے نظریات دان سے گلفروش بن چکے تھے۔

تہران کے نظریات دان کے لیے اب وقت نکالنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ گلفروشی کا کاروبار وقت سے بندھا ہوا ہے۔ 'صبح میں ٹیکسیوں اور کاروں کے پیچھے دوڑ کر پھول بیچتا ہوں اور شام کو عاشق میری دکان کو یاد کرتے ہیں'، حمید سیاوش یاسمین کو سمجھاتا ہے۔ وہ درحقیقت یاسمین سے ملنا نہیں چاہتا۔ اپنے دھندے کی مصروفیات کا رونا روتا ہے۔ جب یاسمین حیل و حجت کرتی ہے تو وہ وقت دینے پر راضی ہوجاتا ہے۔

'میں مقررہ وقت پر ان کی دکان پر پہنچنے کے لیے نکلتی ہوں۔ وہ دور سے مجھے دکھائی دیتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر بیٹھے وہ پھولوں کو سجارہے تھے۔ میں جا کر ان کی پشت پر کھڑی ہوجاتی ہوں۔ ان کو ان کا کام کرنے دیتی ہوں۔ کچھ ساعتیں گزرتی ہیں۔ مجھے اس طالبہ کا خیال آتا ہے، جس سے حمید سیاوش نے لائٹر لے کر سگریٹ جلائی تھی اور وہ طالبہ ہفتوں کس قدر خوش رہی۔

'یہ وہ حمید تو نہیں رہا۔ یہ کوئی گلفروشی کا دھندہ کرنے والا وہ چھوٹا کاروباری شخص ہے، جس کا حمید نے اپنے لیکچروں میں بارہا تذکرہ کیا تھا'، یاسمین نے کہا۔

اپنے وقت کا لینن اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یاسمین کی جانب مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

'آپ رو رہے تھے؟' یاسمین پوچھتی ہے۔

'آپ کی آنکھوں کا میرے کندھوں پر بوجھ تھا'، حمید روپڑتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

شوذب عسکری Nov 06, 2014 09:03pm
رزاق سربازی! نہایت حسّاس ، نہایت پُر اثر اور نہایت لطیف۔۔۔۔ بِلاشبہ آپ کی تحریر اِس امر کی مستحق ہے کہ باقاعدہ لکھ کر تحسین بجا لائی جائے۔ اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ !!