حب الوطنی کی قیمت

حب الوطنی کی قیمت ہر کوئی نہیں چکا سکتا۔ لیکن ان پاکستانیوں نے اس کی قیمت ادا کی جنہیں واہگہ پر بم کا نشانہ بنایا گیا۔
حب الوطنی کی قیمت ہر کوئی نہیں چکا سکتا۔ لیکن ان پاکستانیوں نے اس کی قیمت ادا کی جنہیں واہگہ پر بم کا نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان کی کامیابیاں انفرادی اور ناکامیاں اجتماعی ہیں۔ کوہ پیمائی کی مثال دیکھیں، نوجوان کوہ پیما ثمینہ بیگ نے 2013 میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا۔ مہم جوئی کی بات کریں تو نمیرہ سلیم 2007 میں زمین کے قطبِ شمالی تک پہنچیں، اور اس کے ایک سال بعد قطبِ جنوبی بھی پر بھی اپنے قدم جمائے۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے 1979 میں نوبیل پرائز جیتا۔ 17 سالہ ملالہ یوسفزئی بھی نوبیل پرائز جیت کر اب ان کے ساتھ شامل ہوچکی ہیں۔

اسکواش میں اعظم خان، جہانگیر خان، اور پھر جان شیر خان؛ ٹینس میں راشد ملک اور اس وقت 15 سالہ ہارون رحیم دونوں نے ڈیوس کپ کھیلا، اور پھر اعصام الحق یو ایس اوپن چیمپیئن شپ 2010 کے مین اور مکس ڈبل کے فائنل میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ٹیم اسپورٹس میں بھی افراد ٹیم کے باقی ممبران سے زیادہ اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہاکی میں اصلاح الدین، سمیع اللہ، کلیم اللہ، اور حسن سردار۔ کرکٹ میں یونست خان نے آسٹریلیا کے خلاف لگاتار تین سنچریاں اسکور کیں، جبکہ ان کے ٹیم میٹ اور کپتان مصباح الحق نے طوفانی رفتار سے کھیلتے ہوئے صرف 21 گیندوں پر 50 رنز بنا ڈالے۔

ہر کیس میں ان کی کامیابیاں وہاں شروع ہوئیں جہاں دوسروں کے خوابوں کا اختتام ہوا۔

پھر بھی پاکستانی اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں جب ان سے اجتماعی پرفارمنس کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ایک ہی لے میں گانے سے جو آواز اٹھنی چاہیے، وہ ایک بے معنی شور میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ سماجیات کے ماہرین کو اس کی وجوہات کا جائزہ لینے میں دہائیاں لگیں گی، جبکہ پاکستان میں ہم اس کے اثرات کے ساتھ جی رہے ہیں۔

اور اس کا سب سے بہترین مظاہرہ ہمارے ملک کی گورننس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ ہماری قوم اجتماعی نااہلی کے بوجھ تلے دب کر بکھرتی جارہی ہے۔ جن لوگوں کے پاس طاقت و اقتدار نہیں ہے، وہ اس کے لیے مطالبے اور کوششیں کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس یہ ہے وہ اس کا استحصال کر رہے ہیں۔ وہ اس کو اپنے دیرینہ خوابوں کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے گورننس کا مطلب ذمہ داری کے بجائے منظم طور پر ناجائز فائدے اٹھانا ہے۔

ہم انفرادی اور قومی سطح پر اپنے بارے میں بہت بلند آراء رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے بارے میں سب سے درست رائے وہی ہوسکتی ہے جو دوسرے دیں۔ اپنے دوستوں کی جانب سے تعریف کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن اپنے دشمن کی جانب سے ملنے والی عزت بڑی بات ہے۔ بیرونی سرمائے کی آمد ہی اب معیشت کے مضبوط ہونے کا معیار کہلاتا ہے۔

ہر حکومت نے سرمایہ کاروں کی کانفرنسیں منعقد کرا کر یہ دکھانا چاہا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔ یہ سامنے کے دروازے سے بیرونی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتے ہیں، جبکہ اپنے ہی شہری پچھلے دروازے سے اپنا سرمایہ باہر منتقل کرنے کی خواہش میں سرگرداں ہیں۔ سوئس بینکوں اور لندن کی ریئل اسٹیٹ میں پیسہ لگایا جاتا ہے تاکہ شہریتیں خریدی جاسکیں، یا سرمایہ پاکستان کے علاوہ کہیں بھی محفوظ رکھا جاسکے۔

لیکن اس کے باوجود ہم سرمایہ کاروں کی کانفرنسیں منعقد کراتے رہنے میں مصروف ہیں۔ یہ GUM کی طرح ہوچکی ہیں۔ GUM سوویت دور میں حکومتی سرپرستی میں چلایا جانے والا ایک بہت بڑا ڈپارٹمنٹل اسٹور تھا، جو موسکو کے ریڈ اسکوائر پر قائم تھا۔ اس کی کھڑکیوں پر اشیا کی لاتعداد تصاویر موجود ہوا کرتی تھیں جس میں برتن، کپڑے، اپلائنسز، فرنیچر، غرض یہ کہ زندگی کی ہر چیز کا اشتہار موجود ہوتا تھا، لیکن شیلف خالی ہوا کرتے تھے۔ اشتہار میں موجود چیزیں اسٹاک میں دستیاب نہیں ہوا کرتی تھیں، اور GUM اسی وجہ سے بدنام تھا۔

اکتوبر 2014 میں اسلام آباد میں ہونے والی تازہ ترین انٹرنیشنل انویسٹمنٹ کانفرنس جن بیوروکریٹس نے آرگنائز کی تھی، شاید انہوں نے مارکیٹنگ کی ٹریننگ GUM سے حاصل کی ہوگی۔ بیرونہ سرمایہ کاروں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ دو میگا کارپوریشنز، یعنی ناکام ہوتی ہوئی پی آئی اے، اور پاکستان اسٹیل ملز میں سرمایہ کاری کریں۔ بھلے ہی پاکستان آنے والے تمام شرکا پی آئی اے کے علاوہ باقی تمام ایئر لائنز سے آئے ہوں۔ اور جس وقت وزیر اعظم نواز شریف اسلام آباد میں اسٹیل مل کو سرمایہ کاری کا ایک ناقابلِ انکار موقع قرار دے رہے تھے، اس وقت اس کے اوون اور فرنس ٹھنڈے اور اس کے کوئلے کے بنکر اس کی تجوریوں کی طرح خالی ہوتے جارہے تھے۔

پڑھنے والوں میں موجود وہ پنجابی جو تاریخ سے لگاؤ رکھتے ہیں، انہیں 1846 میں ہونے والے ایک ایسے ہی حکومتی دیوالیے کے بارے میں یاد ہوگا۔ پہلی سکھ جنگ کے بعد برطانیہ نے شکست کھا چکے سکھ دربار پر 2 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ رنجیت سنگھ کی سخاوت میں سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں میں سے کوئی بھی اس مشکل وقت میں سامنے نہیں آیا۔ ہینری لارنس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اپنی ذاتی دولت کا استعمال کر کے آسانی سے یہ قرضہ چکا سکتے تھے لیکن اس کے لیے صرف حب الوطنی کی ضرورت تھی۔

حب الوطنی ایک مہنگی چیز ہے۔ ہر کوئی اس کی قیمت نہیں چکا سکتا۔ ہاں ان 60 پاکستانیوں نے ضرور یہ قیمت ادا کی جنہیں 2 نومبر کو واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے دوران بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔

اکتوبر 1984 میں دہشتگرد تنظیم آئرش ریپبلیکن آرمی نے مسز مارگریٹ تھیچر پر برائٹن میں بم حملہ کیا۔ اسی دن تھوڑی دیر بعد کنزرویٹو پارٹی کی کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ دہشتگرد نہیں چاہتے تھے کہ وہ یہ دن دیکھیں۔

واہگہ بارڈر پر جو لوگ بھی نشانہ بنے، ان سب کی ان چاہی قربانی کو سلام پیش کیا جانا چاہیے اور ان کی ہمت کو بھی سلام کرنا چاہیے جو اس کے اگلے دن ہی اسی تقریب میں شرکت کر کے دہشتگردی کو چیلنج کرتے نظر آئے، جو تقریب دہشتگرد نہیں چاہتے تھے کہ پاکستانی دیکھیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری آرٹ مورخ اور مصنف ہیں۔

www.fsaijazuddin.pk

یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں