دشمن کا دشمن دوست

شائع December 13, 2014
تحریکِ انصاف کے کارکنان اپنے قائد عمران خان کی تقریر سننے کے لیے کراچی کی مرکزی شاہراہ پر جمع ہیں (12 دسمبر 2014) — اے ایف پی
تحریکِ انصاف کے کارکنان اپنے قائد عمران خان کی تقریر سننے کے لیے کراچی کی مرکزی شاہراہ پر جمع ہیں (12 دسمبر 2014) — اے ایف پی

تحریک انصاف کے پلان سی کے مطابق بروز جمعہ کراچی میں مکمل طور پر ہڑتال رہی اور شہر کی سڑکوں پر صرف تحریک انصاف کے جیالے دکھائی دیے۔

فیصل آباد کے بعد کراچی میں دھرنا عمران خان کے پلان سی کے مطابق چار دھرنوں میں سے دوسرا دھرنا تھا، جس کے بعد 15 دسمبر کو لاہور اور پھر 18 دسمبر کو پورے پاکستان میں دھرنے دے کر مفلوج کیا جائے گا۔ اس کے بعد پلان ڈی اور پھر پلان اِی کا وقت آئے گا۔

تحریک انصاف کے اسلام آباد اور پنجاب کے شہروں میں دھرنوں کی سمجھ تو آتی ہے مگر کراچی میں دھرنا دینے کی وجہ عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہے۔

پنجاب کے شہروں میں تحریک انصاف کا دھرنا اس لیے بھی جائز لگتا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں کا ووٹ بینک پنجاب ہے، جس پر بقول پی ٹی آئی مسلم لیگ ن نے ڈاکہ ڈالا ہے۔

اگر تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی مسلم لیگ ن نے کی ہے تو پھر تحریک انصاف کو سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دھرنا دینے کی کیا ضرورت تھی؟

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی، جو کہ نہ تو وفاق میں اور نہ ہی صوبہ سندھ میں حکومتی بنچوں پر بیٹھی ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ن پر دھاندلی کے الزامات تو لگا رہی ہے مگر سندھ کی دونوں بڑی جماعتوں پر دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگا رہی؟ حالانکہ 11 مئی کو ہونے والے انتخابات کے دن ہی دوپہر بارہ بجے کے قریب تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ ایم کیو ایم کراچی میں کھلم کھلا دھاندلی کر رہی ہے، جس کے بعد عمران خان کی جانب سے بھی متعدد بار کراچی میں ہونے والی مبینہ دھاندلی پر ایم کیو ایم کو مود الزام ٹھرایا گیا۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ ن الزام لگاتی ہے کہ اندرونِ سندھ پیپلز پارٹی نے دھاندلی کی، مگر حیران کُن طور پر تحریک انصاف کی جانب سے اندرونِ سندھ ہونے والی دھاندلی پر پیپلز پارٹی کو کبھی بھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔

علاوہ ازیں عمران خان ماضی میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے پر برطانیہ میں مقدمات چلانے کے دعوے بھی کرچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پر بھی خان صاحب متعدد بار کرپشن کے الزامات لگا چکے ہیں۔

مگر حیران کُن طور پر عمران خان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر لگائے گئے الزامات کراچی پہنچتے ہی بھول جاتے ہیں اور اس کی وجہ دونوں جماعتوں کے ساتھ سیاسی ہم آہنگی ہے۔

پیپلز پارٹی کی طرح ایم کیو ایم نے بھی تحریک انصاف کو پورا موقع مہیا کیا اور اسی وجہ سے کراچی کی سب سے بڑی جماعت کی جانب سے کسی بھی قسم کا ردّ عمل سامنے نہیں آیا، جیسا کہ 12 مئی 2007 میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کراچی دورے کے موقع پر آیا تھا۔

ایم کیو ایم کی جانب سے پنجاب کے علاقے سیالکوٹ میں باؤ انور کے قتل کی وجہ سے بھی پنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور قائد تحریک الطاف حسین کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا کے یہ نہ ہو کہ وزیر اعظم سمیت پنجاب کے منسٹروں کا بھی کراچی میں داخلہ بند ہو جائے۔

سیالکوٹ میں باؤ انور کی ہلاکت شاید یہ پہلا موقع ہے جب ایم کیو ایم کے کسی عہدے دار کی ہلاکت پر کراچی شہر میں حالات خراب نہیں ہوئے اور ایم کیو ایم کی جانب سے تحریک انصاف کے دھرنے پر خاموشی سے احتجاج کیا گیا، جس کا فائدہ یقیناً تحریک انصاف کو ہوا۔

ایم کیو ایم کی تحریک انصاف کے دھرنے پر خاموشی اور پیپلز پارٹی کی کھلی اجازت دراصل دونوں جماعتوں کا حکومت کے خلاف گٹھ جوڑ ہے، جو کہ بظاہر جمہوریت کے بچاؤ کی خاطر حکومت کے ساتھ نظر آتے ہیں مگر اصل میں دونوں جماعتیں تحریک انصاف کا کندھا استعمال کر رہی ہیں۔

اس دھرنے کے بعد پیپلز پارٹی بلند و بانگ دعوے کرے گی کہ ہماری سندھ حکومت نے کراچی میں تحریک انصاف کے دھرنے کو facilitate کیا۔ اگر پیپلز پارٹی بھی چاہتی تو مسلم لیگ ن کی طرح بٹوں کو بھیج کر گولی چلوا سکتی تھی۔

اسی طرح تحریک انصاف بھی مسلم لیگ ن کی دُشمنی میں پیپلز پارٹی کی مفاہمتی حکمتِ عملی کو سراہے گی، جس کی پر فارمینس سے ایسا لگ رہا تھا کہ دھرنا تحریک انصاف کی جانب سے نہیں بلکہ صوبائی حکومتِ کی جانب سے کیا گیا ہے۔

حیران کُن طور پر عمران خان نے اپنا خطاب انتہائی مختصر رکھا اور شاید اس کی وجہ حکومت کے ساتھ دوبارہ سے شروع ہونے والے مذاکرات ہیں۔

ویسے تو مزارِ قائد پر تحریک انصاف کے ہونے والے جلسے میں بھی خان صاحب کی تقریر انتہائی مختصر تھی۔

ہو سکتا ہے کہ دونوں مواقع پر خان صاحب کی مختصر تقاریر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ کیے جانے والے زبانی معاہدے کے تحت ہو۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ تحریک انصاف کو اپنے دھرنوں میں میڈیا کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ویسے تو تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی جانب سے میڈیا کے نمائندوں کو اکثر تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مگر کراچی شٹ ڈاؤن میں خواتین صحافیوں کے ساتھ بھی برا سلوک کیا گیا، جو کہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ صحافی چاہے کسی بھی میڈیا گروپ سے ہوں، اور وہ میڈیا گروپ بھلے ہی آپ کا ناپسندیدہ ہو، لیکن صحافیوں پر تشدد اور ان کی تذلیل، خاص طور پر خواتین صحافیوں کی، ایک ایسا فعل ہے جو پارٹی کے چہرے پر بدنامی کا ان مٹ داغ لگا سکتا ہے۔

پلان سی کے ابتدائی دونوں دھرنوں میں ہی میڈیا، بالخصوص خواتین صحافیوں کے ساتھ بد تمیزی کی گئی۔ اگر خان صاحب کی جانب سے ہی ان واقعات کی مذمت نہیں کی جائے گی تو پیر کے روز لاہور میں ہونے والے دھرنے میں بھی ایسے ناخوشگوار واقعات پیش آسکتے ہیں۔

تحریک انصاف کے پلان سی کے مطابق اگلا دھرنا لاہور میں ہوگا اور عمران خان پہلے ہی نواز حکومت کو تنبیہ کر چکے ہیں کہ اگر مسلم لیگ ن نے لاہور میں بھی فیصل آباد کی طرح تحریک انصاف کے پر امن مظاہرین پر گولی چلانے کی کوشش کی تو تحریک انصاف وزیراعظم کا لاہور میں رہنا مشکل کردے گی۔

کراچی میں تحریک انصاف کے پُر امن دھرنے کے بعد اب مسلم لیگ ن پر بھی پریشر ہوگا کہ وہ لاہور میں پیر کے روز ہونے والے دھرنے کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرح خاموشی سے ہضم کرے۔

مگر مسلم لیگ ن سے کوئی فضول حرکت بعید نہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کے دشمن اس کے اندر ہی ہیں، جنہوں نے فیصل آباد میں حق نواز کو ہلاک کر کے تحریک انصاف کی مرتی تحریک کو آکسیجن فراہم کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے پاس تحریکِ انصاف کے لیے مزید کتنے آکسیجن سلینڈر موجود ہیں، جو ہر بار اس کا سانس اکھڑنے پر اسے نئی زندگی عطا کریں۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 9 جولائی 2025
کارٹون : 8 جولائی 2025