فاطمہ جناح اور ریڈیو کے فرمانبردار ٹرانسمیٹر

اپ ڈیٹ 17 جون 2015
فاطمہ جناح کی قائد اعظم کے ساتھ ایک یادگار تصویر
فاطمہ جناح کی قائد اعظم کے ساتھ ایک یادگار تصویر

فاطمہ جناح کی تدفین اورتقریر کے حوالے سے گذشتہ بلاگ میں پیش کیے جانے والے حقائق کے حوالے سے پڑھنے والوں نے بے شمار تبصرے کیے۔ ان تبصروں میں کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ ہم نے غالباً تاریخی حقائق مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان دوستوں کا خیال اپنی جگہ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حالات اسی طرح ہیں جس طرح ہم نے بیان کیے ہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر میں رکاوٹ ڈالنے کے حوالے سے ہم نے قدرت اللہ شہاب کی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔ ہمارے کچھ دوستوں اور بلاگ پڑھنے والوں کی رائے یہ تھی کہ ایسا ممکن نہیں۔ ان کی تسلی کے لیے ایک بار پھر ہمیں ثبوت و شواہد پیش کرنے کی ضرورت ہوئی۔ اب ہم یہ پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ تقریر کے بعد محترمہ فاطمہ جناح اور زیڈ اے بخاری کے مابین ہونے والی خط و کتابت خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کی جانب سے اسکندر مرزا کو معزول کرنے کے عمل پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

جمیل احمد کی مرتب کردہ کتاب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح: تقاریر، پیغامات اور بیانات (1967-1947) کے صفحہ نمبر 59 اور 60 پر فاطمہ جناح اور زیڈ اے بخاری کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کا متن کچھ یوں ہے۔

(مس جناح کے نام کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ مسٹر زیڈ اے بخاری کے معذرت نامے کا متن)

”میں نہایت خلوص کے ساتھ گذشتہ رات آپ کی نشری تقریر میں بہت تھوڑے سے وقت کے لیے ایک مرتبہ گڑبڑ ہونے پر معذرت خواہ ہوں۔ گذشتہ ہفتے کے روز ہمارے جنریٹروں میں کچھ خرابی ہوگئی تھی اور ہم نے کل نیشنل ہک اپ کے دوران آٹھ بجے رات سے سوا نو بجے رات تک اپنے ٹرانسمیٹروں کو پوری بجلی فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ مجھے نہایت افسوس ہے کہ ٹرانسمیٹروں کو پوری بجلی فراہم کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے اور نیتجتاً ہمارے سننے والوں اور ہمارے ٹرانسمیٹر مانیٹروں نے ہماری تیسری نشریات کے دوران میں کچھ خرابی محسوس کی۔ تاہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس خرابی نے آپ کی نشری تقریر کی روانی کو متاثر نہیں کیا جس کا اظہار ہمارے ریجنل اسٹیشنوں سے موصولہ رپورٹوں سے ہوتا ہے۔“

(مس جناح کے جواب کا متن)

'بحوالہ آپ کا مراسلہ نمبر پی یو جی 1(16)/ 51 مورخہ 12 ستمبر1951ء۔ گیارہ ستمبر کو آپ نے میرے براڈکاسٹ کی کاپی شام سات بجے منگوا بھیجی تھی اور آٹھ بجے شام آپ بنفس نفیس نہایت مشوش حالت میں میری رہائش گاہ پر تشریف لائے تھے اور آپ نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مجھ سے اپنی تقریر میں سے بعض جملے حذف کرنے کی استدعا کی تھی۔ میں نے جذبات سے بالاتر ہو کر آپ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ اگر ایک خود مختار جمہوری ملک میں کسی قسم کی آزادی اظہار نہیں ہے تو میں اپنی تقریر کو تبدیل کرنے کے بجائے اپنی تقریر سے دستبردار ہونے کو ترجیح دوں گی جو خود آپ کی فرمائش پر نشر کی جا رہی تھی۔

'معمول کے مطابق براڈکاسٹ کے ختم ہونے کے بعد آپ نے میری ریکارڈ شدہ تقریر مجھے سنوانے کے لیے کہا تھا۔ اس میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں تھی۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ اس وقت نہ تو آپ نے اور نہ آپ کے عملے کے کسی رکن نے ٹرانسمیٹروں میں کسی نقص یا خرابی کا ذکر تک کیا تھا۔ مجھے اپنے گھر واپسی پر اپنی تقریر کی براڈ کاسٹ میں خرابیوں کا پتہ چلا تھا اور یہ بات میرے لیے موجب حیرت تھی کہ یہ خرابیاں عین انہی جملوں کے وقت پیدا ہوگئی تھیں جن کو حذف کرنے کی آپ نے درخواست کی تھی۔

'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ٹرانسمیٹر نہایت مستعد اور فرماں بردار قسم کے ہیں جو آپ کی سہولت کے پیش نظر نقص پیدا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

'جن لوگوں نے میری اصل براڈکاسٹ میں رکاوٹ ڈالنے اور خرابی پیدا کرنے کی کوشش کی اور میری آواز کو لوگوں تک پہنچنے سے روکا اور جن جملوں کو انہوں نے ختم کرنے کی کوشش کی، وہ دراصل ان کی اہمیت کو اجاگر کر گئے۔ آپ نے اپنے خط میں اپنے ریجنل اسٹیشنو ں سے میری براڈ کاسٹ کی روانی کی رپورٹوں کا حوالہ دیا ہے، اگر آپ ان سے مطمئن ہوتے تو پھر کسی قسم کی معذرت کی ضرورت نہیں تھی۔ جہاں تک اس ضمن میں لوگوں کی شکایت کا تعلق ہے تو ان ناراض ہونے والوں کو معقول طور پر مطمئن کرنا آپ کا کام ہے۔ آپ کی وضاحت نہ تو تسلی بخش ہے اور نہ قائل کرنے والی۔ ایسی صورت میں معذرت اقبال جرم کا محض ایک ملائم سا اندازہے۔'

زیڈ اے بخاری ایک مایہ ناز صداکار تو تھے ہی، اس کے علاوہ ایک سخت قسم کے منتظم بھی تھے۔ وہ اپنی شخصیت کے سوا کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ شاید اسی زعم میں یا حکومت وقت کی ہدایت پر انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر کو سنسر کرنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ ان کے مزاج کے حوالے سے نامور صحافی برہان الدین حسن اپنی کتاب پس پردہ کے صفحہ نمبر 36-35 پر لکھتے ہیں کہ:

'پاکستان کے ابتدائی دس برسوں کے دوران میں سیاسی رہنما اور ان کی جماعتیں اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں اس قدر مصرف رہیں کہ وہ ریڈیو پر حکومتی پالیسیوں یا اپنی شخصیات کی تشہیر کرنے پر توجہ نہیں دے سکیں۔ ان دنوں وزارت اطلاعات کا سربراہ بھی ایک جونیئر سرکاری ملازم ہوتا تھا جس میں نہ تو اتنی صلاحیت ہوتی تھی نہ وہ اس قدر اثر ورسوخ کا مالک ہوتا تھا کہ زیڈ اے بخاری، محمد سرفراز یا غنی اعرابی جیسے پیشہ ور افراد کو قابو کر سکتا۔

'ان دنوں یہ کہانی عام تھی کہ سندھ کے مشہور صحافی جنہیں کسی حکومت میں وزیرِ اطلاعات کے طور پر شامل کر لیا گیا تھا، ریڈیو پاکستان کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس کے دورے پر آئے۔ جب وزیر ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری سے ملاقات کر رہے تھے تو ایک چپراسی چائے کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ بخاری صاحب نے اپنی سیٹ سے ایک دم اٹھ کر چپراسی کے ہاتھ سے ٹرے لی اور بڑے احترام سے وزیر کے سامنے رکھ دی۔ وزیر بخاری صاحب سے کہنے لگے، 'ہم پرانے دوست ہیں۔ آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں چونکہ وزیر بن گیا ہوں اس لیے میری خوشامد کی جائے۔' بخاری صاحب نے فوراً جواب دیا۔ ایسا جواب صرف وہی دے سکتے تھے۔ ”سر میں آپ کی خوشامد نہیں کر رہا۔ بلکہ اپنے چپراسی کو خوش کرنے کی کوشش کررہا ہوں کیوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کسی دن وہ میرا وزیر نہ بن جائے۔“'

محترمہ فاطمہ جناح نے 1958 میں اسکندر مرزا کی حکومت کے خاتمے اور جنرل ایوب کے اقتدار سنبھالنے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یقیناً ملک میں سیاسی عدم استحکام، اقربا پروری اور رشوت خوری تھی۔ ان معاملات کے سبب عوام معاشی و معاشرتی اور سماجی بد حالی کا شکار تھے۔ جمیل احمد کی کتاب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح: تقاریر، پیغامات اور بیانات (1967-1947) کے صفحہ نمبر281-280 کے مطابق 1958 کو جاری کردہ ایک بیان میں محترمہ فاطمہ جناح نے اس وقت کی ملکی صورت حال اور اسکندر مرزا کی معزولی پر کچھ ان خیالات کا اظہار کیا:

158۔ میجر جنرل اسکندر مرزا کی معزولی پر اخبارات کوبیان۔ 1958ء

'سیاسی منظر سے میجر جنرل سکندر مرزا کے چلے جانے سے پاکستانی عوام نے سکھ اور اطمینان کا سانس لیا ہے۔ گذشتہ تین سال کے دوران سربراہ مملکت کی حیثیت سے وہ ملک کا کوئی بھی مسئلہ حل نہ کرسکے۔ اس کے بجائے ملک میں انتشار اور افتراق کو فروغ حاصل ہوا اور ملک سیاسی اور اقتصادی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ عوام کی حیثیت ایک خاموش تماشائی کی رہ گئی تھی۔ انہیں شدید مشکلات اور ہر طرح کی سماجی برائیوں کا سامنا تھا۔

'جنرل ایوب خان کی حکومت میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا ہے۔ مسلح افواج نے سماجی برائیوں اور انتخابی بدعنوانیوں کے خاتمہ کا بیڑہ اٹھایا ہے تاکہ عوام کے اندر اعتماد، تحفظ اور استحکام کی فضا پیدا ہو اور ملک میں صورتحال معمول پر آسکے۔ مجھے امید ہے اور دعا ہے کہ خدا انہیں طاقت اور عقل دے کہ یہ لوگ اپنے نیک مقاصد میں کامیاب ہوسکیں۔ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران لوگ پر سکون اور آرام سے رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مطمئن ہیں اور صورتحال کو سمجھتے ہیں۔ ہمارے سامنے مقصد یہ ہے کہ ان تمام منفی قوتوں کو ختم کر دیں جو ملک پر مسلط ہیں اور ملک کو دوبارہ مستحکم حالت میں لے آئیں، تاکہ ہم صحیح جمہوریت کی طرف گامزن ہوسکیں۔ ہم سب کے سامنے یہ ماٹو ہونا چاہیے کہ خود غرضی اور ذاتی مفاد سے بالاتر رہ کر ملک کی خدمت کریں۔ اس کا زیادہ انحصار آپ پر اور آپ کے جذبہ حب الوطنی پر ہے۔

خدا نے چاہا تو یہ تا ریک دن، جلد ہی ختم ہوجائیں گے اور پاکستان کو اقوام عالم میں ویسا ہی مقام حاصل ہوگا جیسا کہ قائد اعظم نے سوچا تھا۔ آیئے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے ساتھ ایک قوم کی حیثیت سے آگے بڑھیں۔'

غالباً اس وقت محترمہ فاطمہ جناح کو قطعاً اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ چند برسوں بعد انہیں ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے لیے چلائی جانی والی مہم کی قیادت کرنی ہوگی۔ ایوب خان کو بھی شاید اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح ان کے لیے کوئی بہت زیادہ مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ انہیں اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا اور ایسا ہی ہوا۔ وہ صدارتی انتخابات میں کامیاب تو ہو گئے لیکن انتخابی نتائج نے انہیں حواس باختہ کردیا تھا۔ ان کی اس کیفیت کو برہان الدین حسن اپنی کتاب پس پردہ کے صفحہ نمبر56-55 پر یوں بیان کرتے ہیں:

1965ء کا صدارتی الیکشن

'ایوب خان کے سیکرٹری اطلاعات اور ان کے سوانح نگار الطاف گوہر نے اس وقت کا نقشہ کھینچا ہے جب منتخب صدر اپنی کامیابی کے بعد تقریر ریکارڈ کرانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ”ایوب خان کی تقریر رات کے 10 بجے نشر ہونی تھی لیکن شام کے 7 بجے ہی سے ایوب خان کو خوشامدیوں اور حاشیہ برداروں کے ہجوم نے گھیرا ہوا تھا جو سب اس بارے میں تجاویز پیش کر رہے تھے کہ صدر کو اپنی ”فاتحانہ“ تقریر میں کیا کہنا چاہیے۔ سیکریٹری اطلاعات نے صدر کے لیے تقریر پہلے ہی تیار کرلی تھی۔ ایوب خان نے جو ابھی تک حواس باختہ تھے مائیکرو فون پر کسی قسم کے جذبات کا اظہار کیے بغیر وہی تقریر پڑھی اور ان کے چہرے پر کئی گھنٹے تک پریشانی چھائی رہی۔

'یہ جان کر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی کہ وہ شکست سے بال بال بچے ہیں اور لوگوں نے ان کی نافذ کردہ آئینی اصلاحات کو تقریباً یکسر مسترد کردیا ہے۔ کل 80 ہزار ارکان میں سے 49951 نے ایوب خان کے حق میں اور 38691 نے مادر ملت کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم مشرقی پاکستان میں یہ فرق بہت ہی معمولی تھا جہاں فاطمہ جناح نے 18434 ووٹ حاصل کیے اور ایوب خان کو 21012 ووٹ ملے۔ مغربی پاکستان کی صورتحال قدرے مختلف تھی۔ یہاں کراچی کے سوا تمام ڈویژنوں اور اضلاع میں ایوب خان کا پلڑا بھاری رہا۔'

مذکورہ تمام معلومات تاریخی حقائق پر مبنی ہیں۔ تاریخ نویسی ایک بے رحم شعبہ ہے۔ یہ آپ کو ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو آپ کو چونکا دیتی ہے۔ ذہن کے بند دریچوں کو کھولنے پر مجبور کرتی ہے۔ سکہ بند اور درباری قسم کے تاریخ دان ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ اپنی سوچ کے دائرے کو محدود رکھیں۔ ایک مخصوص وقت تک تو وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ ایسے مخصوص دائروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں اور جب انہیں اپنے سوالوں کا جواب نہیں ملتا تو اس کے لیے کھوجنا شروع کرتے ہیں۔ یہ ایک مثبت عمل ہے اور جاری رہنا چاہیے۔ ہمیں تاریخ کو مسخ کرنے کے بجائے اس میں پوشیدہ تلخ حقائق منظرعام پر لانے چاہیں تاکہ بحیثیت قوم اپنی درست سمت کا تعین کرسکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

danish khanzada Feb 04, 2015 06:37pm
welldone akhter bhai. fatima jinnah ke tadfin ke blog ke hawale se tarikh par peda hune wale khadshat ab khatam ho gaye hen. aur ap ke kise bhi blog se koi inkar nahe karsakta kyo ke en blogs me mozo ke hawale se mukhtalif books ke hawale bhi shamil hote hen. keep it up...
عبدالرحیم Feb 04, 2015 07:08pm
بلوچ صاحب کا مضمون چاہے کسی کے مزاج کو برہم کرے مگر اس کی حقانیت کو تاریخ اور اس وقت کی عوامی کیفیت درست ثابت کرتی ہے۔ میں جناب موصوف سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان ذہن کو مزید اس کے بعد کے واقعات سے روشناسی عطا فرمائیں، خصوصا بنگلہ دیش کی علٰحیدگی کے صحیح واقعات کی منظر عام پر رونمائی ازحد ضروری ہے۔ ہے ہمت؟
Mohsin Soomro Feb 04, 2015 07:18pm
Fatima Jinnah Ne Ayub Khan ko Welcome kiya tha, ye baat apka blog parhne k baad maaloom howi.Shayad Unhain Andaaza hi nahi tha k "Baat niklegi to bohat door talak jayegi."Aur Aisa hi howa.apke pichle blog ko parh kar ye ilm howa k wo tabayi mout nahi mari theen, aur dour bhi Ayub khan ka tha.Aisi cheezain likhte rahen.Dawn.com K sath sath apko Mubarakbaad deta hoon k aisi cheezain chaap rahe hain.MAin apke blog shru se parh rah hoon lekin mere zehan main ek sawaal hai jo ap se poochna chahta hoon.Apka blog Yahoodi Amsjid aur Fatima Jinnah ki tadfeen k bare main ek T.V channel per main ne do program dekhe. Aisa lag raha tha k Anchor apka likha howa parh raha hai aur wo saari cheezain pesh kar rah ahi jo apke blog main theen. Halaan k apke blog pehle chappey hain aur wo program baad amin howa hai .Kya ap in Dr. Sahib k saath mil kar research karte hain.iska jawab zaroor dain.Agar ye apki apni tehqeeq hai to dekhta hoon k is blog k baad mousoof ko umeed hai naya program mil jayega.Thanks.
Adeel Ali Feb 04, 2015 07:52pm
Fatima Jinnah ne Marshal LAw ki Himayat ki aur wo bhi Ayub Khan k MArshal Law ki, jis ne baad main unhain American Agent qaraar diya tha phir unho ne is hukumat k khilaaf jidojehad ki.Ye bhi bari baat hai Fatima Jinnah ki,lekin hushyaar khabardaar, Dawn group apki sab cheezain bohat se Dr chura lete hain aur pata bhi nahi chalta.Janab Akhtar Balouch aur Dawn group kya ap aisi chori ko rok sakte hain??? Agar rok nahi sakte to itna hi kar dain k Blog ki tasaveer aur Matan per Watermark laga dain.Shukriya Dawn...
Rashid Mumtaz Feb 04, 2015 08:28pm
کاش!  مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 1965ء کا صدارتی الیکشن جیت جاتیں....
آفتاب احمد خان Feb 05, 2015 02:49am
آپ کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خانی مارشل لاء کو خوش آمدید کہا تھا ۔ کیا آپ اس کا تاریخی ثبوت پیش کر سکتے ہیں ۔ میرا ذہن اس کو تسلیم کرنے کو آ ما دہ نہیں ہے کہ جمہوریت پسند مادر ملت ایک ڈکٹیٹر کو ویلکم کہہ سکتی ہیں ۔ ۔ شکریہ
A Subhan Feb 05, 2015 09:57am
Saeen Akhtar Saheb... Masha Allah... what a nice way of narration you have got? As you said, history writing is quite a ruthless job... please keep it up.
sharminda Feb 05, 2015 08:48pm
Hamari qoam ki aik buri aadat hai keh jo ham say bichar jaata hai ussay ham mazloom maan laitay hain aur jo reh jaata hai woh zalim qarar paata hai. Aur bas is baat ka rona peet peet kar ham 70 saal guzaarnay waalay hain. 1951 ki tareeqh dohra kar kissi ko kia faida milnay waala hai? Qaid-e-Azam ki "shahadat" say lay kar aaj tak kitnay hi azeem loag aur masoon shehri hukoomat-e-wat ki behrami ka nishana ban gaay, us kay bawajood ham unhi logo ko waapas laatay hain. kia ham sari zindagi afoos aur rona peetna kartay rahain gay keh kuch aagay bhi barhain gay. aisay mozoowat sirf naumeedi ka bais bantay hain. aur agar waqai in baaton main sadaqat hai tu hamara justice system aik baray sawalia nishan say ziada nahin. Qazi-e-waqt ko shayad is baat ka idrak nahin keh roaz-e-hashar kis kis ka haath hoga aur un ka garaiban.
irfan Feb 06, 2015 05:59pm
I love akhtar baloch blogs. May God bless him.
NASEEB Aug 01, 2015 10:30pm
PLEASE REPLY ME AT ( [email protected])........ WHAT WAS THE ELECTORAL SYMBOL OF GENERAL AYUB KHAN IN THE PRESIDENTIAL ELECTION OF 1965 AGAINST FATIMA JINAH??????