چترال کے سیلاب متاثرین کا مذاق کیوں بنایا جا رہا ہے؟

06 اگست 2015
ایک گھرانہ ٹوٹی ہوئی سڑک پر محفوظ مقام کی جانب نقل مکانی کر رہا ہے۔ — APP
ایک گھرانہ ٹوٹی ہوئی سڑک پر محفوظ مقام کی جانب نقل مکانی کر رہا ہے۔ — APP
پل ٹوٹ جانے سے کئی وادیوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ — فوٹو سید حریر شاہ۔
پل ٹوٹ جانے سے کئی وادیوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ — فوٹو سید حریر شاہ۔
سیلاب سے رابطہ سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں۔ — APP
سیلاب سے رابطہ سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں۔ — APP
پل ٹوٹ جانے سے کئی وادیوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ — APP
پل ٹوٹ جانے سے کئی وادیوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ — APP
راستوں پر کیچڑ اور دلدلی زمین کے باعث گاڑیوں کا چلنا بھی ممکن نہیں. — APP
راستوں پر کیچڑ اور دلدلی زمین کے باعث گاڑیوں کا چلنا بھی ممکن نہیں. — APP

پاکستان کے میدانی علاقوں میں ساون ہر سال سیلابی صورتحال پیدا کر دیتا ہے، فرق بس ہر سال کے نقصانات میں ہوتا ہے۔ تیاری کی جائے تو نقصانات کے حجم کو کم سے کم رکھنے میں کامیابی ملتی ہے۔ گزشتہ سال حکومت اپوزیشن کے دھرنوں سے نمٹنے میں مصروف رہی اور یوں عوام کا خیال نہ رکھ سکی اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر تنقید کی زد میں آئی۔ اس سال ساون ابھی باقی ہے اور حالات مسلسل الرٹ رہنے کے متقاضی ہیں۔

چترال میں حالات قدرے مختلف ہیں۔ چترال خیبر پختونخوا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا لیکن آبادی کے حوالے سے سب سے چھوٹا ضلع ہے۔ واخان کی سولہ کلومیٹر چوڑی پٹی ہٹا دی جائے تو چترال کی سرحدیں بروغل میں تاجکستان سے ملتی ہیں جبکہ کنٹر، گلگت بلتستان، دیر اور سوات کے ساتھ سرحدیں رکھنے والے اس ضلع کی آبادی کا اندازہ 5 لاکھ کے قریب لگایا جاتا ہے۔ چترال کا محض 6 فیصد حصہ ہی قابلِ کاشت اور آبادی کے لائق ہے جبکہ 15 فیصد حصہ گلیشیئرز، اور بقیہ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ بیانوں پر مشتمل ہے۔

چترال میں سردیاں سخت جبکہ گرمیاں صرف زیریں علاقوں میں گرم کہلائی جا سکتی ہیں۔ بالائی چترال میں جولائی اور اگست کے دنوں میں بھی پنکھے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود عالمی حدت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ کچھ سالوں سے چترال میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ بالائی چترال کے گاؤں بریپ میں کوئی 8 سال قبل گلیشیئر پھٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ اگلے سال خوبصورت اور دیومالائی داستانوں کے حامل گاؤں سنوغر میں، تیسرے سال دل کو لبھانے والے مناظر کے حامل قصبے بونی، اور پھر کھوار زبان کے صوفی شاعر مہ سیار کی محبوبہ کی جائے پیدائش ریشن میں گلیشیئر پھٹنے سے تباہی ہوئی۔ یہ سلسلہ اب رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

پڑھیے: چترال کا سیلاب اور گلیشیائی جھیلیں

نوشہرہ سے آگے کا خیبر پختونخوا کا کوئی علاقہ مون سون کے راستے میں نہیں آتا لیکن ساون کے بچھڑے بادل (سکندر اعظم کے پیچھے رہ جانے والے زخمی فوجیوں کی طرح) ضلع دیر تک بارشوں کا باعث بنتے ہیں اور یوں یہ علاقہ ان بارشوں کی برکت سے ہرا بھرا اور چارے سے بھرپور ہے۔ دیر اور چترال کے درمیان 12 ہزار فٹ بلند لواری ٹاپ نے ان بادلوں کا راستہ روکے رکھا ہوا تھا۔ لواری ٹاپ نہ صرف ساون کے بادلوں کو روکتا تھا بلکہ 6 ماہ تک چترالیوں کو بھی بقیہ پاکستان سے پرے رکھتا تھا۔

سابق صدر پرویز مشرف نے لواری ٹاپ میں سے سرنگ (جو کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا آئیڈیا تھا) نکلوا کر چترالیوں کو بارہ مہینے کا پاکستانی تو بنا دیا پر ساون کے لیے چترال پہنچنے کا راستہ بھی کھول دیا۔ یہ بات اوروں کو مذاق سی لگے گی لیکن پرویز مشرف کے چترالی ناقدین (جن کی تعداد گو کہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہے) اسے سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے پر تیار رہتے ہیں۔

متذکرہ قصبے بونی سمیت آس پاس کے علاقوں میں ساون کی بارشیں پہلے کبھی نہیں، یا موجودہ شرح میں نہیں ہوئیں، لیکن اس وقت ان علاقوں میں موسم اسلام آباد اور پنڈی سے ذرا مختلف نہیں تھا، باہر زوروں کی بارش جبکہ گھروں کے اندر حبس۔ یہ تجربہ چترالیوں کے لیے چند سالوں سے زیادہ کا نہیں ہے۔ چترال کی زمینی ساخت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان پہاڑیوں پر زبردست بارش کا پانی اپنے ساتھ ڈھیروں مٹی لے کر لڑھک کر نیچے آیا اور چترال کے دیہات وجود میں آئے۔ کہتے ہیں کہ پانی کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتا، اب دوبارہ اپنے راستوں پر آیا تو اسے ہم قدرت کا قہر، موسمی تبدیلی، ہمارے گناہوں کا نتیجہ، حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی، اور پتہ نہیں کیا کیا نام دے رہے ہیں۔

چترال میں سیلابی تباہی کو قومی میڈیا نے کافی کوریج دی۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ کسی دھرنے کی غیر موجودگی، اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے مزید انکشافات نہ ہونا، یا ایان علی کی عدالتی پیشیوں کا ختم ہونا ہو، یا واقعی میں ہمارا میڈیا اتنا بالغ ہو گیا ہے کہ سانحے کو سانحہ سمجھنے لگا ہے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے چترال کا دورہ کیا، اور دونوں رہنماؤں نے علاقے کی بحالی تک چین سے نہ بیٹھنے کا عزم ظاہر کیا۔

مزید پڑھیے: سیلاب سے نمٹنے کے لیے قدرت کی طرف واپسی

عمران خان نے یونیورسٹی قائم کرنے، اور وزیرِ اعلیٰ نے ریسکیو سروس دینے کا اعلان کیا اور وزیراعظم نے کہا کہ "میں آپ کی خیریت پوچھنے آیا ہوں۔" بالائی چترال سے پیپلز پارٹی کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی سردار حسین نے وزیر اعظم کی تعریف میں جو تقریر کی، اس کی ہو بہو نقل عمران خان کو پیش کردی، اور آخر میں بالائی چترال کو ضلع کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا۔

پی ٹی آئی کی خواتین نشست سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی محترمہ فوزیہ بی بی کو ریسکیو 1122 سروس چاہیے تھی۔ رکن قومی اسمبلی چترال شہزادہ افتخار الدین کو لاسپور، تورکہو روڈ پر کام تیز کرنے کی جلدی تھی۔ سب سے زیادہ قابل توجہ سابق رکن صوبائی اسمبلی حاجی غلام محمد تھے۔ موصوف پرویز مشرف کے ٹکٹ پر پانچ سال رکن رہے لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی آمد پر اپنی گاڑیوں کی قطاریں لگوا دیں۔ حاجی صاحب نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ اس وقت جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت کے باوجود تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے کارواں میں خود ڈرائیو کرتے ہوئے پائے گئے۔ حاجی صاحب اپنے دوست پرویز خٹک کی میزبانی کا حق پورا کر رہے تھے یا جے یو آئی کی ضلعی قیادت کو کوئی پیغام دے رہے تھے، جنہوں نے انہیں اس وقت معطل کیا ہوا ہے، یہ بعد میں معلوم ہوگا۔

ہر مطالبے اور اعلان کی اہمیت اس کے وقت سے ماپی جاتی ہے۔ خان صاحب کی طرف سے چترال میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان قابلِ تعریف ہے لیکن اس وقت یونیورسٹی نہیں ریلیف چاہیے، ریسکیو سروس اور ڈسٹرکٹ کا مطالبہ بھی مؤخر کیا جاسکتا تھا۔ اس کی جگہ ہنگامی بنیادوں پر بجلی کا بندوبست کرنے کے لیے جنریٹرز مانگے جاتے، گلگت سے ایندھن لانے کا تقاضا کیا جاتا، ہیلی کاپٹرز سے ادویات پہنچانے کی مانگ کی جاتی، پانی کا انتظام ہوتا تو یہ ریلیف کے کام ہوتے۔ بحالی اور علاقائی ترقیاتی کام تو بعد کی بات ہے۔

مقامی رہنماؤں کا مذاق ملاحظہ کرنے کے بعد آئیں ذرا سیلاب کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیں۔ بالائی چترال حالیہ سیلاب سے شدید متاثر ہوا ہے۔ رابطہ سڑکیں نہ رہیں، اشیائے خور و نوش مارکیٹ سے ختم ہوگئی ہیں۔ ایندھن صرف سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے لیے رہ گیا ہے۔ پہلے سے ناگفتہ بہ بجلی کے نظام کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ موبائل فون بند، گاڑیوں سے سڑکیں خالی۔ ریشن کے مقام پر بجلی گھر ٹنوں مٹی تلے دب گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس بجلی گھر سے پھر بلب جلانے کی امید نہ رکھی جائے۔ اسے صاف کرنے کی مدت میں نیا بجلی گھر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔

جانیے: چترال: راستے بدستور بند، امدادی سرگرمیاں جاری

بونی جنرل ہسپتال واقعتاً بند ہے۔ بونی آغا خان میڈیکل سینٹر ایک نجی ادارہ ہے۔ اندازہ کیجیے وہ بھی 24 گھنٹے ایندھن مانگ تانگ کر جنریٹر پر چلایا جا رہا ہو، تو کوئی شہزادہ ہی وہاں علاج کے لیے جا سکتا ہے، گھر بار لٹ کر مہاجر بننے والا مقامی باشندہ نہیں۔ بالائی چترال کا حسین گاؤں ریشن پانی کی بوند بوند کے لیے ترس رہا ہے، مژگول کے بے گھر متاثرین قاقلشٹ میں کھلے اسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔ کوراغ کے مقام پر دریا برد سڑک کی وجہ سے لوگوں کو ہزاروں فٹ بلند عمودی پہاڑ چڑھنا پڑتا ہے، جسے خواتین، بچے، اور ضعیف لوگ سر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

ضلع کے اندر سرکاری ملازمین کے لیے مزید تعطیلات کا اعلان کروا دیا گیا ہے لیکن ضلع سے باہر جانے والے جو اپنے خاندان کے ساتھ عید منانے چترال آئے تھے، بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہیلی کاپٹروں سے محض بیمار یا پہنچ والوں کو چترال پہنچا دیا جاتا ہے۔ نارمل حالات میں چیری، سیب، اور بادام لانے کے لیے اڑنے والے آغا خان فاؤنڈیشن کے ہیلی کاپٹرز اس وقت معلوم نہیں کہاں اڑ رہے ہیں۔ بونی سے چترال خاص، جو کہ 75 کلومیٹر ہے، کا کرایہ سیلاب سے قبل ڈیڑھ سو سے کم تھا، اب بونی سے کوراغ جو کہ صرف 10 کلومیٹر ہے کا کرایہ ڈیڑھ سو روپے وصول کیا جاتا ہے، جو لٹ پٹ چکے مقامی لوگوں کے لیے مشکل کے اس وقت میں ہزاروں روپے کے برابر ہے۔

ہمارے لیڈران کو ایمرجنسی بجلی، ادویات، ایندھن، اور ٹرانسپورٹ کا عارضی بندوبست کرنے کا خیال نہیں آرہا ہے۔ انہیں ضلع چاہیے، ریسکیو سروس چاہیے، اللہ کرے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں۔ مگر یہ سب چیزیں جن کے لیے مانگی جا رہی ہیں، وہ اس وقت ایک گلاس پانی، سوکھی روٹی، اور بخار کی دو گولیوں کے لیے بھی پریشان ہیں۔ خدارا اس مشکل وقت میں بھی اپنے مفادات کی رٹ لگا کر غریبوں کا مذاق مت اڑائیں، اور ان کے زخموں پر نمک مت چھڑکیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Akhunzada Aug 06, 2015 03:42pm
Nice to see a blog about the issues of Chitral. Hope it will help to highlight the difficulties of the people this for flung area. Well don! Ejaz.