مریم نواز مستقبل کی وزیر اعظم؟

24 اکتوبر 2015
۔ — اے پی فوٹو
۔ — اے پی فوٹو

اسلام آباد: بدھ کی رات پاکستان میں میڈیا کی پوری توجہ واشنگٹن میں وزیر اعظم نواز شریف کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات پر تھی۔

تاہم،پاک-امریکی سرگرمیاں اوول آفس میں ہونے والی اس ملاقات تک محدود نہیں تھیں کیونکہ وائٹ ہاؤس کے ایک اور حصے میں دختر اول مریم نواز اپنا عالمی سیاسی کیریئر شروع کر رہی تھیں۔

مریم نے اوباما کی بیوی مشل کے ہمراہ کھڑے ہو کر بچیوں کی تعلیم پر پہلی مرتبہ تقریر کی۔ اس موقع پر ان کی والدہ اور پاکستانی خاتون اول حاضرین میں خاموشی سے برا جمان دکھائی دیں۔

تقریر کے دوران مریم نے بتایا کہ وہ اور ان کی دو بیٹیاں بلیئر ہاؤس میں مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ اس دورے کو نواز فیملی کا ورکنگ ٹرپ سمجھا جا سکتا ہے۔

مریم –مشل ملاقات کا محور تعلیم تھا ، لیکن بظاہر بڑی خبر یہ ہے کہ امریکی اس دورے اور تعلیم پروگرام کو مریم کی سیاسی گرومنگ کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔ خیال رہے کہ یہاں مریم کو نوا شریف کےسیاسی جان نشین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ مشل نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے حیران کن طور پر مریم نواز کے ساتھ کام کرنا مناسب سمجھا؟

مریم کو دعوت نامہ پہنچانے کی ذمہ داری جنوبی ایشیا کے معاملات پر صدر اوباما کے اہم مشیر ڈاکٹر پیٹر لیوے کو سونپی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی مستقبل کی کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

جوہری معاملات پر پرنسپل مذاکرات کار ڈاکٹر لیوے اور مریم نواز کے درمیان رابطوں کو پاکستان میں کئی حلقے دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔

مریم نواز بھی ملنے والی بھرپور امریکی توجہ سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔انہوں نے واشنگٹن سے ٹوئٹر پر صدر اوباما اور مشل کی شاندار مہمان نوازی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

حالیہ واقعات سے آگاہ ذرائع کے مطابق، لیڈروں کے قریبی ساتھیوں سے رابطے بڑھانا ایک معمول کی حکمت عملی ہے کیونکہ اِس طرح وہ معاملات بھی حل کرنے میں مدد مل جاتی ہے جو سرکاری سطح پر حل کرنا دشوار ہوتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ اوباما انتظامیہ مریم سے بات چیت میں آسانی محسوس کر رہی ہے۔’ایک ایسے وقت پر جب خاتون اول کلثوم نواز سرگرم نہیں ہیں، امریکی انتظامیہ کو ایک ایسی بااثرشخصیت کی تلاش تھی جو وزیر اعظم کے قریبی ہو اور ایسے میں نگاہیں مریم نوازپر ٹھرتی ہیں‘۔

امریکی سفارت خانے سے ان موضوع پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم، ایک افسر نے بتایا ’ایسا نہیں کہ امریکیوں نے یہ قدم اچانک اٹھایا کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے برتاؤ سے غیر ملکی حکومتوں کو لگا کہ مریم سے رابطے بڑھانے چاہیں‘۔

مریم اس مرتبہ اپنے والد کی حکومت میں بہت سرگرم ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ حکومتی معاملات سے جان کاری کا ایک اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

نواز حکومت قائم ہونے کے فوراً بعد انہیں نوجوانوں کیلئے قرضہ پروگرام کا سربراہ بنا دیا گیا۔ تاہم، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس عہدے کیلئے قابلیت پر سوال اٹھائے جانے کے بعد انہوں نے عہدہ چھوڑ دیا۔

جس کے بعد سے مریم کو سرکاری میڈیا پالیسی کا اہم ترین کردار سمجھا جاتا ہے، اگرچہ وہ پس پردہ رہ کر یہ’میڈیا مینجمنٹ ‘ کرتی ہیں۔

بعض اوقات وہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ-نواز کے جلسوں میں بھی نظر آئیں۔

2013 سےمریم کے سیاسی منظر نامے پر آنے کے بعد قیاس آرئیاں تھیں کہ نواز شریف انہیں پارٹی کی قیادت دینے کیلئے گروم کر رہے ہیں، حالانکہ پہلے اس پوزیشن کے حق دار شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شریف کو سمجھا جاتا تھا۔

اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم کے دنوں بیٹے سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس ساری صورتحال میں مریم کا دورہ امریکا قیاس آرئیوں کو مزید تقویت دیتا ہے۔

تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کے خیال میں نواز شریف مریم کی اُسی طرح گرومنگ کر رہے ہیں جیسے ذوالفقار بھٹو نے بے نظیر کی کی تھی۔

پاکستان میں خاندانی سیاست کے رواج کو سامنے رکھا جائے تو مریم کی گرومنگ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

عائشہ کے مطابق، امریکیوں کی مریم میں دلچسپی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شریف برادران اور ن –لیگ کو مستقبل کی بڑی سیاسی قوت کے طور پر دیکھ رہےہیں۔

یہ قیاس آرئیاں بھی پائی جاتی ہیں کہ نواز شریف خود امریکیوں کے ساتھ ایک غیر روائتی رابطہ قائم رکھنا چاہتے ہیں، اور مریم یہ کام کامیابی سے کر سکتی ہیں۔

یہ وہ طریقہ ہے جسے بھٹو خاندان نے ہمیشہ اپنایا اور اس کی حالیہ مثال آصفہ بھٹو اور ہیلری کلنٹن کی ایک ملاقات ہے۔

امریکا کے ساتھ تعلقات صرف خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی تک ہی محدود نہیں ہوتے۔ جیسا کہ وکی لیکس نے انکشاف کیا کہ ماضی میں واشنگٹن پاکستان میں حکومتیں بنانے ختم کرنے میں کردار ادا کرتا رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

حافظ Oct 25, 2015 05:47am
" وہ پس پردہ رہ کر یہ’میڈیا مینجمنٹ ‘ کرتی ہیں۔" مولانا شیرانی کے مطابق اگر فتنہ کا ڈر ہو تو پردہ کرنا شرعاً ضروری ہو جاتا ہے۔
Ashian Ali Oct 25, 2015 03:36pm
سارا خاندان اور سسرال ساتھ لے کر امریکی دورہ پر چلے گئے ہمارے شریف وزیع اعظم صاحب۔ پھر بھی کسی نچلے درجے کے ملازم نے اسقبال کیا !