بنگلہ دیش میں دس عسکریت پسندوں کو سزائے موت

ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی عدالت نے 2005 میں وکلاء کے دفتر میں خود کش دھماکے میں معاونت کے الزام میں دس اسلامی انتہا پسندوں کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت کا حکم دیا ہے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر رفیق الاسلام کے مطابق پر ہجوم عدالت کے کمرہ میں کالعدم جمعیت المجاہدین (جے ایم بی) پرعدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے باوجود کسی قسم کی ندامت نہیں دیکھی گئی۔
اسلام نے خبر رساں ایجینسی اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے خود کش حملہ آور کو بم بنانے اور بم دھماکے کی منصوبہ بندی، میں معاونت کی تھی۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ 2005 میں وکلاء ایسوسی ایشن کے دفتر پر حملے کے نتیجے میں حملہ آور، چار وکلاء اور چار دیگر افراد سمیت آٹھ افراد ہلاک اور سو زخمی ہوئے تھے۔
دوہزارپانچ میں جے ایم بی کی جانب سے کئے گئے حملوں سے بنگلہ دیش میں یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ پندرہ کروڑ سے زائد آبادی والے اس اسلامی ملک میں کہیں افغانستان کی طرح مذہبی شدت پسندی شروع نہ ہوجائے۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ڈھاکہ کے شمال کے علاقہ غازی پور میں واقع دفتر میں حملہ آور وکیلوں کے لباس میں ملبوس داخل ہوا اور اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔
جج مطاہر حسین نے دس انتہا پسندوں کو پھانسی کی سزا سنائی۔
جمعرات کے روز بنگلہ دیش فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ کے دوران 85 افراد نے ملزمان کے خلاف گواہی دی۔
ملزمان نے فیصلے پر کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
اسی سال اگست اور دسمبر میں جے ایم بی کے حملوں کے نتیجے میں اٹھائیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے بعد اسلامی حکومتی اتحاد نے کالعدم گروپوں کے خلاف کاروائی کی اور ان گروپوں کے کئی رہنماوں کو ہلاک کر دیا اور ایک ہزار ارکان کے خلاف مقدمہ بنایا گیا، 2007. میں ان کے چھ سرکردہ رہنماؤں کو پھانسی دی گئی۔
جے ایم بی کی بنیاد افغانی انتہا پسند شیخ عبدالرحمان نے رکھی تھی،ایک پمفلٹ میں اس نے کہا تھا کہ وہ شیطانی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، اور حملوں کا مقصد ملک میں شرعی نظام نافذ کرنا ہے۔
رحمان گروپ کا اہم کمانڈر تھا اور اس پر الزام تھا کہ اس نے لاء دفتر میں خود کش حملے کی منصوبہ بندی کی تھی، مارچ دو ہزار سات میں اس کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
بنگلہ دیش کی الیٹ فورس نے کہا تھا کہ جے ام بی کی کمر توڑ دی گئی ہے تا ہم نئے لیڈر کی سربراہی میں یہ کام تو کرتی رہی لیکن دوہزارپانچ کے بعد سے اس نے بم دھماکوں جیسی کوئی کارروائی نہیں کی۔
حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش میں بد ترین مظاہرں میں ملک کی بڑی اسلام جماعت اور نئی قائم ہونے والی جماعت حفاظت اسلام نے کہا کہ اسلامی گروپ نہ دہشت گرد ہیں اور نا ہی حملوں میں ملوث ہیں، انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ سیکولر حکومت اسلام مخالف ہے۔
جنوری میں ملک کی تاریخ کے ان پرتشدد مظاہروں میں ایک سو پچاس افراد ہلاک ہوئے تھے، جو وار کرائم انیسو اکہتر کی آزادی کی جنگ میں ملوث تین اسلامی رہنماوں کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد رونما ہوئے تھے۔