گذشتہ چند ہفتوں کے دوران میں نے ییل یونیورسٹی میں مختلف جنوبی ایشیائی تنظیموں کے منعقد کردہ پروگرامز میں شرکت کی۔ ان میں دیوالی کی تقریبات کے لیے ایک ڈانس اور میوزک پرفارمنس، فلم منٹو کی اسکریننگ، اور مشہور پاکستانی صحافی رضا رومی کی ایک گفتگو شامل تھی۔

ہر پروگرام میں ایک متاثر کن اور حیران کن بات یہ تھی کہ ہندوستانی و پاکستانی طلباء اور اساتذہ ساتھ مل کر کام کرتے تھے اور طلباء بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے۔

یہ تجربہ ان جنگی خیالات اور جارحانہ پالیسیوں سے بالکل مختلف اور متضاد تھا جو ہمارے ملکوں میں رائج ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے اپنی شناخت پر سوچنے کی تحریک ملی۔

میرے والد پاکستان کے لیے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ بچپن میں میں ان کے جنگی میڈلز اپنے سینے پر فخر سے سجاتا اور فوج میں شمولیت اختیار کر کے ہندوستان سے لڑنے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔

یوں تو میں ایک معتدل مزاج متوسط طبقے کے گھرانے میں پلا بڑھا تھا مگر مجھے بچپن سے ہی اسکول اور معاشرے نے ہندوستان سے نفرت کرنا سکھایا۔ اور بھلے ہی ہندوستان میرے لیے قابلِ نفرت بن چکا تھا، مگر پھر بھی ہمیں بولی وڈ کی فلمیں اور گانے بے حد پسند تھے۔

لیکن 2007 میں جب میں پہلی بار نئی دہلی گیا، تو میں نے جانا کہ سماجی اور ثقافتی طور پر دونوں ممالک ایک ہی جیسے ہیں۔

دکانوں، سائن بورڈز اور ہورڈنگز پر دیوناگری خط میں لکھائی اور اسکوٹر چلاتی خواتین کے علاوہ مجھے کچھ مختلف محسوس نہیں ہوا۔

مگر ہندوستان میں بھی پاکستان سے نفرت اور خوف لوگوں میں جڑوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ نئی دہلی کے زیادہ تر ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز نے مجھے پاکستانی ہونے کی وجہ سے رہائش دینے سے انکار کر دیا۔ مجھے جامع مسجد کے قریب ایک شور آلود، گندے اور سستے موٹل میں رہنا پڑا کیونکہ "سارے پاکستانی وہیں رہتے ہیں۔"

دونوں ممالک کے درمیان دشمنی، جسے بچوں کے ذہنوں میں کم عمری سے ہی بٹھا دیا جاتا ہے، انتہائی گہری ہے۔ جب میں اپنی میڈیکل ریزیڈنسی کے لیے امریکا آیا، تو شروع شروع میں میں ہندوستانی ڈاکٹروں سے ملنے جلنے میں احتیاط اور شبہے سے کام لیتا تھا۔

مجھے دو ہندوستانی ساتھیوں سیالجہ اور شیوانا سے دوستی کرنے میں کئی ماہ لگ گئے، جو دونوں بعد میں لونگ آئی لینڈ جیوئش میڈیکل سینٹر میں بچوں اور نوجوانوں کی نفسیات کے مرکز میں میری سب سے اچھی دوست بنیں۔

لکھاری اپنی گریجوئیشن کے موقع پر دوست سیالجہ کے ساتھ۔
لکھاری اپنی گریجوئیشن کے موقع پر دوست سیالجہ کے ساتھ۔
لکھاری اپنی دوست شیوانا کے ساتھ۔
لکھاری اپنی دوست شیوانا کے ساتھ۔

یوں تو دونوں ہی امریکا میں پیدا اور پلی بڑھی تھیں، مگر دونوں باعمل ہندو تھیں اور ہندوستان کے ساتھ مضبوط ثقافتی تعلق رکھتی تھیں۔

ہماری دوستی وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوئی اور ہم لوگ اب اس پر زیادہ اور کھلے دل سے بات کرتے کہ کس طرح ہمیں ہمارے معاشروں میں مذاہب اور سیاسی پس منظر کی بنیاد پر نفرت کرنا سکھایا گیا تھا۔ مگر پھر ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے درمیان ایک جیسی چیزیں زیادہ اور اختلافات کم تھے۔

جب میں پہلی بار امریکا آیا تو لوگ اکثر مجھ سے پوچھا کرتے کہ میرا تعلق کہاں سے ہے، اور میں پاکستان میں جاری مسائل پر طویل بحثوں سے بچنے کے لیے کہتا کہ میرے والدین ہندوستانی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اور یہ درست بھی ہے کیونکہ میری والدہ کا تعلق امرتسر اور میرے والد کا تعلق جالندھر سے ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہاں میں ہندوستانی شناخت رکھتا ہوں۔

نفرت کیسے بھلائی؟

میں سیاسی اور جذباتی، ہر طرح سے پاکستانی ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ امریکا بھر میں ہونے والی میراتھنز میں جب بھی موقع ملتا ہے، میں ضرور شرکت کرتا ہوں اور فخر سے پاکستانی شرٹ پہنتا اور پاکستانی پرچم تھام کر دوڑتا ہوں۔

لکھاری نیویارک سٹی میراتھن کی اختتامی لکیر پر پاکستانی پرچم تھامے ہوئے۔
لکھاری نیویارک سٹی میراتھن کی اختتامی لکیر پر پاکستانی پرچم تھامے ہوئے۔

جب بھی پاکستان کرکٹ اور ہاکی میچز میں ہندوستان کو شکست دیتا ہے، تو میری خوشی کی دیدنی ہوتی ہے۔ مگر میں اب یہ بھی سمجھ گیا ہوں کہ میں ہندوستانی وراثت بھی رکھتا ہوں۔

ویرات کوہلی میرے پسندیدہ کھلاڑیوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کھیلوں پر میرا ردِ عمل زیادہ حب الوطنی پر مبنی ہوتا جا رہا ہے مگر یہ بڑھتی ہوئی مذہب پرستی یا قوم پرستی کی وجہ سے نہیں ہے۔

جب میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کامیاب فنکاروں اور سیاتدانوں، جیسے بوبی جندل اور انیش کپور کو دیکھتا ہوں، تو مجھے اپنے اندر حسد اور فخر کے ملے جلے جذبات محسوس ہوتے ہیں۔

لکھاری دیوالی کے موقع پر اپنے دوستوں کے ساتھ۔
لکھاری دیوالی کے موقع پر اپنے دوستوں کے ساتھ۔

جب ہندوستان نے مریخ پر اپنا پہلا مشن بھیجا، تو میں سوچ رہا تھا کہ 1925 میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنولاجی سے سول انجینیئرنگ کرنے والے میرے دادا اگر حیات ہوتے، تو آج بہت خوش ہوتے۔

دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی خلیج اور سرحد کے دونوں جانب بڑھتی ہوئی سیاسی اور مذہبی انتہاپسندی بھی دونوں ممالک کے امن پسند لوگوں کے لیے پریشان کن ہے۔

حال ہی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان ہندوستان میں سب سے کم پسند کیا جانے والا ملک ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ثقافتی اور سماجی تعلقات میں خلا بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ جنگ چاہنے والے اور نفرتوں کا پرچار کرنے والے اپنا زہر اگل رہے ہیں۔ دونوں ہی ممالک کے لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور ایک دوسرے پر دھونس جمانے کی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔

میں اس سیاسی تقسیم میں مقصدیت پسند رہنا چاہتا ہوں۔ امریکا میں فخریہ طور پر پاکستانی کی حیثیت سے رہتے ہوئے میں اپنے سماجی تعلقات کا دائرہ بڑھاتے ہوئے مزید ہندوستانی دوستوں کو اس میں شامل کرنا اور مزید ہندوستانی لکھاریوں کی کتابیں پڑھنا چاہتا ہوں، اور بولی وڈ کو تو میں ہمیشہ سے ہی پسند کرتا ہوں۔

میرے لیے کسی ایک چیز کو پسند کرنے کا مطلب دوسری چیز سے نفرت کرنا نہیں ہے۔ یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک اب کچھ چیزوں، جیسے نفرتیں، بھلا دیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Aslam Zada Dec 11, 2015 06:40pm
پہلے میں بہی ایسے ہی سوچا کرتا تہا لیکن گلف میں آکر انڈین لوگوں کا رویہ دیکھکر پتہ چلا کہ دو قومی نظریہ بلکل درست تھا
راشد نذیر علی Dec 12, 2015 03:47pm
لکھاری موصوف کا تجربہ اور موقف سر آنکھوں پر مگر ان کو بھارت کے ہندو انتہا پسندوں کے کرتوت بھی دیکھنے چاہیئں۔ گجرات کے فسادات گھر واپسی، دادری کا واقعہ انکی آنکھیں کھولنے کو کافی ہونے چاہیئں۔
avarah Dec 12, 2015 03:51pm
THER IS DIFFERENCE BETWEEN LOVE AND COMPROMISE. YOU ARE JUST COMPROMISING