الیکٹرانک کامرس یا برقی کاروبار دنیا میں بہت عرصہ سے جاری ہے اور مستقبل کی دکانیں اور مارکیٹیں، سب کچھ ڈیجیٹل ہوگا۔ ہر چند کہ پاکستان میں 2000 میں ای کامرس پر کام کا آغاز ہوچکا ہے اور ایکسپورٹ سے وابستہ اور دیگر کچھ کمپنیز نے اپنے کاروبار کو انٹرنیٹ پر منتقل کیا ہے لیکن ابھی بھی جدید دنیا اور مقامی مارکیٹ میں کافی فرق ہے. ہمارے تجارتی مراکز میں ابھی ’ای کامرس‘ کا دور دورہ نہیں، اور یہاں آج بھی کاروبار روایتی انداز میں ہو رہا ہے۔

کچھ جگہوں پر بزنس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے لیکن اس میں ’ہارڈ وئیر‘ تو کافی خرید لیا گیا ہے، مگر بزنس کو ڈیجیٹل کرنے کے عمل سے ہم ابھی بہت دور ہیں۔ کیا بزنس کو آئی ٹی سے آراستہ کرنے سے مراد چند کمپیوٹر خرید کر کمپوزنگ/ای میل کرنا، سوشل میڈیا پر کمپنی کا ایک آدھا پیج تیار کرنا یا ایک سادہ سی ویب سائٹ قائم کرنا ہے؟

بزنس کو ڈیجیٹل کرنے سے کمپنی کی ’آپشن کاسٹ‘ میں کمی ہوتی ہے لیکن اس طرح تو کمپنی کو آئی ٹی کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، الٹا کمپنی کے سالانہ لاکھوں روپے دیکھ بھال/تنخواہوں پر خرچہ ہو رہا ہے۔

جدید رجحانات پر درست طریقے سے عمل نہ کرنے کی بے شمار وجوہات ہیں۔ بدقسمتی سے بزنس مالکان کی اکثریت میں کاروبار کی ترقی کے لیے، ماہرین سے ملاقات، کتب بینی، ورکشاپس اور سیمینارز میں شرکت کا رجحان انتہائی کم ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ سیمینار میں شرکت کیوں نہیں کی تو جواب ملتا ہے کہ یار کیا کریں ٹائم ہی نہیں ہے۔

پڑھیے: بغیر سرمائے کے اپنا کام کیسے شروع کریں؟

لیکن سیاسی/مذہبی تقریبات، فیشن شو، فلم، اسٹیج ڈرامے ہر ہفتے دیکھتے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد سے زیادہ بزنس مالکان کے آفس میں ٹی وی آن رہتا ہے۔ اکثریت کا پسندیدہ موضوعِ گفتگو بزنس کی ترقی کے بجائے حالات حاضرہ، خارجہ تعلقات، عالمی سازشیں ہیں۔

ممکنہ خطرے کا انتباہ

اگر آپ پہلے سے بزنس (اشیاء/خدمات) سے وابستہ ہیں۔ اور آپ ابھی تک قدیم اور روایتی طریقے سے اپنے بزنس کو چلا رہے ہیں تو آئندہ کچھ عرصہ بعد آپ کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ اب آپ کا مقابلہ اپنے روایتی حریفوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی سے بھی ہے۔

وہ وقت گزرتا جا رہا ہے جب لوگ صرف بازار میں آکر خریداری کرتے تھے اور مارکیٹ میں جس کے پاس اچھی اور بڑی دوکان تھی وہ ہی ہمیشہ کامیاب ہوتا تھا۔ ’’قدیم دوکان"، ’’اصلی دوکان‘‘ 1905 سے قائم شدہ، آج کا صارف ان باتوں سے مرعوب نہیں ہوتا۔ اب لوگ گھر بیٹھے بیٹھے ٹی وی پر کئی ہزار کلومیٹر دور سے اشیاء/خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی تیزی سے سب کچھ تبدیل کرتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں بہت تیزی سے آن لائن شاپنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ابتدائی سالوں میں تو آن لائن شاپنگ زیادہ تر لوگوں کی رسائی سے دور تھی کیونکہ ادائیگی کی واحد ذریعہ کریڈٹ کارڈ ہوا کرتا، جو کہ آج بھی زیادہ تر لوگوں کے پاس موجود نہیں۔ لیکن اب کچھ عرصے سے پاکستانی ویب سائٹس نے ڈلیوری پر کیش کی ادائیگی اور موبائل فون کمپنیوں کے ذریعے ادائیگی کے آپشن متعارف کروائے ہیں، جس سے آن لائن شاپنگ اب زیادہ مشکل نہیں رہی۔

ای کامرس کی بدولت صارف اپنی من پسند مصنوعات کو بغیر وقت ضائع کیے دیکھ اور خرید سکتا ہے اور اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے مختلف اشیاء کی قیمت، مقدار، اجزا ترکیب کا موازنہ کر سکتا ہے، جو کہ روایتی بازار میں شاید ممکن نہیں۔ اس لیے اگر آپ اپنی مصنوعات کو ای کامرس سے ہم آہنگ نہیں کریں گے، تو کوئی دوسرا یہ کام کر لے گا۔

ای کامرس کے معنی اور فائدہ

اگر آپ پہلے سے کوئی کاروبار کر رہے ہیں یا آپ کوئی نیا کاروبار شروع کرنے چاہتے ہیں، تو آپ کو ای کامرس کے بارے میں معلومات ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ ای کامرس کی بنیادی معلومات کے بعد آپ کے لیے فیصلہ سازی آسان ہوجائے گی کہ آپ نے اس سمت میں قدم بڑھانا ہے یا نہیں۔

ای کامرس کے اردو میں معنی الیکٹرونک تجارت ہے، سادہ الفاظ میں آن لائن ویب سائٹ کے ذریعہ اشیاء یا خدمات کی خرید و فروخت کو ای کامرس کہتے ہیں۔ بے شمار فوائد کی وجہ سے یہ تصور دنیا بھر میں بہت تیزی سے عام ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیے: کون سا کاروبار شروع کیا جائے؟

بزنس مین کو بچت

آپ کو جگہ، اسٹاف، نگرانی، کرایہ، وغیرہ کے اخراجات میں کمی ہوتی ہے ۔ مثلاً آپ اپنے سیل پوائنٹ/شوروم کا سائز چھوٹا کرسکتے ہیں۔ اشیاء کو اپنے پاس زیادہ مقدار میں ذخیرہ کرنے کے ضرورت نہیں۔ آرڈر کے حساب سے اشیاء کو خریدا جا سکتا ہے۔ کاروبار کو منظم کرنے سے آپ کو درست معلومات ملتی ہیں، جس سے آپ کی فیصلہ سازی آسان ہو جاتی ہے، اور نہ صرف آپشن کاسٹ میں کمی ہوتی ہے، بلکہ منافع میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

آپ اپنے گاہکوں سے دوبارہ رابطہ کرسکتے ہیں۔ ان کو خود کار طریقے سے ای میل، ایس ایم ایس ارسال کر سکتے ہیں، اس کے ساتھ آپ کی ویب سائٹ ہر وقت کھلے شوروم کا کام کرتی ہے، جس پر آپ اپنی دیگر اشیاء/خدمات کے اشتہارات بھی لگا سکتے ہیں، جیسے ڈان ٹی وی کی اس ویب سائٹ پر ڈان کے اپنے ٹی وی پروگرامز کے اشتہارات نظر آتے ہیں۔ نیز ای کامرس سے ہر قسم کی 'انسانی غلطیوں' سے نجات ملتی ہے۔

فرنٹ کی دوکان یا "موقع کی جگہ" کا حصول ہر ایک کے لیے ممکن نہیں، لیکن اپنی جگہ تبدیل کیے بغیر اپنے گاہکوں کی تعداد میں اضافہ سو فیصد ممکن ہے۔

صارف کے لیے بچت

صارف کے وقت اور توانائی کی بچت ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ ذریعہ سستا بھی ہے۔ مثلاً اگر ایک طالب علم کسی چھوٹے شہر میں رہتا ہے، اور اس کو کوئی کتاب درکار ہے، تو کئی دفعہ کتاب کی قیمت سے زیادہ اخراجات سفر کے ہوجاتے ہیں۔

اشیاء کے صارف تک پہنچنے تک درمیان میں کافی سارے مڈل مین ( ڈسٹری بیوٹر) آتے ہیں، جن کا منافع بھی گاہک ہی ادا کرتا ہے، جس سے اشیاء /خدمات کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ ای کامرس کی بدولت "تیار کنندہ" کا براہ راست رابطہ "استعمال کنندہ" سے ہو جاتا ہے۔

ای کامرس کا آغاز کیسے کریں؟

اگر آپ پاکستان میں ای کامرس کی لائن میں قدم رکھنے چاہتے ہیں تو آپ کو ان بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے.

ای کامرس ویب سائٹ

نظام کی تیاری

اشتہاری مہم


ای کامرس ویب سائٹ

آپ کو سب سے پہلے ضرورت ہے ایک ’ای کامرس ویب سائٹ‘ کی، جس پر آپ اپنی اشیاء/خدمات کو پیش کرسکیں، اگر آپ سنجیدہ بزنس کرنا چاہتے ہیں تو میری رائے یہ ہے کہ اپنے ذاتی ڈومین نیم سے کام شروع کریں نہ کہ سوشل میڈیا پر ایک پیج سے۔ آپ ’’ای کامرس ویب سائٹ‘‘ کسی ماہر شخص/کمپنی سے تیار کروا سکتے ہیں، یا پھر خود بھی ویب سائٹ ڈیزائننگ سیکھ سکتے ہیں، جو بہت زیادہ مشکل کام نہیں، بلکہ یہ ایک دلچسپ سرگرمی ہے۔ خاص طور پر اگر آپ نوجوان ہیں اور آپ کے پاس سرمایہ کم اور وقت زیادہ ہے، تو پھر آپ کو میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ ’’ویب سائٹ ڈیزائننگ‘‘ سیکھیں۔ (اس کے لیے آپ ہمارا گذشتہ مضمون پڑھ سکتے ہیں جو آپ کے لیے کافی مفید ہوگا۔)

جانیے: ویب ڈویلپمنٹ: آپ بھی یہ کاروبار کر سکتے ہیں

نظام کی تیاری

ای کامرس کو شروع کرنے میں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے لیکن بعد میں کام آسان تر ہوجاتا ہے۔ کام کو آسان، اور سروس کو بہتر اور منظم کرنے کے لیے آپ کو ایک نظام (سسٹم) درکار ہے جسے آپ نے اپنی ضروریات کے مطابق ترتیب دینا ہے۔

روایتی کاروبار میں گاہک خود دکان پر آتا ہے، پیسے دیتا اور چیزیں لے جاتا ہے۔ لیکن یہاں گاہک صرف آپ کی ویب سائٹ پر آرڈر دیتا ہے۔ آرڈر کو وصول کرنا، سامان کو پیک کرنا، گاہک کے گھر تک پہنچانا اور رقم وصول کرنا سب آپ کی ذمہ داری ہے۔

گھبرائیے نہیں جناب، ای کامرس پہلے کی نسبت اب بہت آسان ہے۔ اب تمام امور "ریڈی میڈ" انداز میں حل ہوتے ہیں۔

ذمہ داری کون ادا کرے گا، دکان/شوروم پر سامان کون سیٹ کرے گا: ویب سائٹ۔

سیلز مین کا کام کون کرے گا: ویب سائٹ۔

آرڈر کون نوٹ کرے گا: ویب سائٹ۔

رقم کون وصول کرے گا: کوریئر یا آپ کا بینک

آرڈر کے مطابق پیکنگ کرنا اور کوریئر سے رابطے کی ذمہ داری: خود آپ کی یا آپ کا کوئی ملازم

سامان کی گاہک کے گھر ڈلیوری کون کرے گا: کورئیر

پیسے کا لین دین: اشیاء یا خدمات کی ادائیگی کے لیے صارف اپنے کریڈٹ کارڈ استعمال کرسکتا ہے۔ بہت سی غیر ملکی کمپنیاں اس سلسلے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان کے تمام بینکوں میں ’انٹربینک فنڈز ٹرانسفر‘ کی سہولت موجود ہے، یعنی صارف گھر بیٹھے اپنے بینک کی ویب سائٹ سے آپ کے اکاؤنٹ میں رقم ارسال کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ رقم کی ادائیگی کے لیے تمام موبائل فون کمپنیز کی سروسز موجود ہیں۔

لیکن پاکستان میں زیادہ تر آن لائن خریدای ’سی او ڈی‘ (کیش آن ڈلیوری) کی شکل میں ہوتی ہے۔ اس کے لیے آپ کو خود سے کوئی اسٹاف وغیرہ نہیں رکھنا بلکہ بہت سی کوریئر کمپنیز یہ کام کر رہی ہیں۔ فرض کریں آپ نے لاہور سے حیدرآباد گاہک کو کوئی چیز فروخت کی، تو بس گاہک کے آرڈر کو پیک کریں اور کوریئر کمپنی کے سپرد کردیں۔ وہ خود ہی گاہک کو سامان پہنچائے گی اور سامان کی قیمت وصول کر کے آپ تک پہنچا دے گی۔ اس کے بہت ہی مناسب اخراجات ہیں۔

اشتہاری مہم

ویب سائٹ کی تکمیل کے بعد سب سے مشکل کام گاہکوں کا آنا ہے۔ جتنے زیادہ سنجیدہ کسٹمر آپ کی ویب سائٹ کا وزٹ کریں گے، کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ اب آپ آن لائن گاہکوں کی توجہ کیسے حاصل کریں؟ تو جناب گھبرائیں نہیں۔ اس کام کے لیے بھی حل موجود ہے۔ مارکیٹ میں بہت سے افراد/کمپنیز بہت ہی مناسب فیس میں یہ آپ کی آن لائن اشتہاری مہم کو منظم انداز میں چلانے کا کام سرانجام دینے کے لیے موجود ہیں۔ شروع میں آپ ان کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ آپ خود یہ مہارتیں سیکھ سکتے ہیں۔

’گوگل ایڈ ورڈز‘ آن لائن اشتہاری مہم کے لیے ایک بہت مزیدار حل پیش کرتا ہے۔ اس میں آپ طے کرسکتے ہیں کہ یہ اشتہار کس طرح کے شخص، علاقے، عمر، جنس، دل چسپی رکھنے والے کو نظر آئے۔ نہایت فوکس کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ’’گوگل ایڈ ورڈز‘‘ کے رزلٹ بہت شاندار ہیں۔ اس کے علاوہ آپ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر مناسب فیس میں اشتہاری مہم چلا سکتے ہیں۔ جس سے دنوں میں آپ کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں حکومتی عدم توجہ، تعلیم کی کمی، یا دیگر اسباب کی وجہ سے انٹرنیٹ کے استعمال کنندگان کی تعداد کم ہے۔ لیکن پھر بھی موجودہ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد تقریباً 2 کَروڑ کے قریب ہے اور آئندہ اس میں اضافہ ہی ہونا ہے، کمی نہیں ہونی۔ بے شمار کمپنیز انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستان کی مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کامیاب کاروبار کر رہی ہیں۔ تو آپ کیوں نہیں کر سکتے؟

تبصرے (19) بند ہیں

zeban shah Jan 25, 2016 06:20pm
NICE DEAR, NICE IDEAS
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 25, 2016 07:33pm
یہ بالکل درست ہے کہ ’’قدیم دوکان"، ’’اصلی دوکان‘‘ 1905 سے قائم شدہ، آج کا صارف ان باتوں سے مرعوب نہیں ہوتا۔ آج کا پاکستانی صارف صرف “حلال“، اور مذہبی جملوں سے مرعوب ہوتا ہے۔ غالبآ یہی وجہ ہے کہ پراڈکٹس میں لفظ “حلال“ بہت نمایاں طور پر لکھنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال سے پاکستانی عوام کی نفسی حالت اور رحجان کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں سارا زور نیشنل ایکشن پلان پر لگایا جا رہا ہے لیکن اس رحجان کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا یا دینا نہیں چاہتا مبادا جنت کہیں دور نہ چلی جائے ! باقی یہ کہ براہ کرم بلاگ چھوٹا لکھیں کیونکہ اس بلاگ کی لمبائی اتنی ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھنا ممکن نہیں کہ بتی جانے کا دوسرا راونڈ سر پر آ جاتا ہے۔
ممتاز حسین Jan 25, 2016 07:52pm
ماشااللہ، بہت بہترین تحریر ہے، آپ کے تمام تحریر کا تو ایک کتابچہ ہونا چاہئے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 25, 2016 08:51pm
آن لائن شاپنگ ملک میں کامیاب نہیں کیونکہ ملک کرپشن اور ناجائز منافع خوری میں گھرا ہوا ہے۔ آن لائن شاپنگ میں جو پراڈکٹس دکھائی جاتی ہیں وہ سوہنی ہوتی ہیں لیکن جب کسٹمر کے گھر آتی ہیں تو یہ ہولی یا دو نمبر ہوتی ہیں جس سے گاہک کو گھاٹا کھانا پڑتا ہے۔ مارکیٹ سے خریداری کسٹمر ٹھوک بجا کر کرتا ہے اور ہلکا اور بھاری مال پرکھ کر خریداری کرتا ہے۔ اس لیے آن لائن شاپنگ، براہ راست دکان سے شاپنگ کا نعم البدل ملک میں نہیں بن سکتا جب تک کہ معاشرہ اللہ لوک نہیں ہوتا۔ یہ درست نہیں کہ ای کامرس کی بدولت "تیار کنندہ" کا براہ راست رابطہ "استعمال کنندہ" سے ہو جاتا ہے اور یوں گاہک کو چیز سستی پڑتی ہے۔ ای کامرس والا یا والی خود تو سب کچھ تیار نہیں کرتا بلکہ کاریگروں سے ڈیمانڈ کے مطابق سامان تیار کرواتا ہے۔ کپڑوں کی ہی مثال لیں کہ کوئی گوٹا لگانے والا ہوتا ہے،کوئی ڈیزائننگ والا، کوئی کپڑوں کو پکا پکا رنگ دینے والا، کوئی سلائی والا ۔۔۔ یہ سب ایک ای کامرس والا یا والی نہیں کر سکتے۔ اس لیے یہاں بھی رنگ ساز، درزی، کلاتھ مرچنٹ، ڈیزائنر ۔۔۔کا خرچہ ملا کر ای کامرس والا بل بناتا ہے اور کسٹمر کی جیب کو خالی کر دیتا ہے۔
RIZWAN Jan 25, 2016 10:35pm
مضومون کا عنوان کافی دلچسپ ھے، لیکن اندرونی معلومات سطحی انداز میں دی گئی ہے۔ اگر ہر پیرگراف کے ساتھ کوئی مددگار ویب لنک دے دیئا جاتا تو مضمون کا دائرہ کافی وسیع ہوجاتا۔ مثلاً ویب سائٹ کی تیّاری کے سلسلے میں چند مفت کمپنیوں کے نام، ابتدائی طور پر بہت ہی مناسب ہوتے۔، COD کے سلسلے میں اگر دو مشہور کمپنیوں کے نام لے لئے جاتے تو لوگ بھٹکنے سے بچھ سکتے، اور گوگل ایڈورٹائزنگ کے لئے بھی کسی کمپنی کا نام یا کسی ٹیوٹوریل کا لنک دیا جاسکتا تھا۔ بہرحال، مضومون ابتدائی طور پر کافی عمدہ تھا اور بہتری کی گنجائش تو بہرصورت ہر وقت موجود رہتی ہے۔
عائشہ بخش Jan 26, 2016 12:39am
میں نجیب احمد سنگھیڑہ کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں بلاگ کو چھوٹا ہونا چاہے ۔ ان باتوں کو کم الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرنی چاہے ۔ ویسے یہ بلاگ بھی بہت شاندار ہے ۔ حسن امتیاز صاحب میں آپ سے ذاتی طور پر رابطہ کرنی چاہتی ہوں۔ آپ کا ای میل ۔فون نمبر یا ویب سائٹ ایڈریس کیا ہے؟
محمد آصف Jan 26, 2016 10:40am
حسن صاحب! پلیز اپنی ویب سایٹ کا لنک شیر کریں۔ شکریہ
حسن امتیاز Jan 26, 2016 01:41pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ : بہت شکریہ آپ کی نظر کرم کا : 1مضمون کو آئندہ مزید مختصر کرنے کے کوشش کروں گا۔ 2آن لائن بزنس پاکستان میں جاری ہے ۔ اور کئی کمپیز بہت کامیابی بھی حاصل کرچکی ہے ۔نیز دنیا کے تمام اہم اقصادی ماہرین کے مطابق ای کامرس کا مستقل بہت روشن ہے۔ 3-آپ نے جن خامیاں کی نشان دہی کی ہے۔میرے خیال میں کوئی بھی کامیاب کاروباری شخص اس طرح کی غلطیاں نہیں کرتا ہے۔ بزنس کے لئے پہلی شرط ہی ایماندار ہے ۔ دھوکہ /بے ایمانی ایک دو دفعہ تو ہوسکتی ہے ۔ لیکن دھوکہ فراڈ کی بنیاد پر ساری عمر بزنس نہیں ہوسکتا۔
حسن امتیاز Jan 26, 2016 01:45pm
@ممتاز حسین : بہت شکریہ آپ کے تبصرہ کا۔ عرض یہ ہے کہ کتاب کو تحریر کرنا اور شائع کرنا مسئلہ نہیں ۔ اصل مسئلہ اس کی فروخت ہے ۔ جو پاکستان میں ابھی کافی مشکل کام ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں ابھی کتاب خریدنے کا رواج کافی کم ہے ۔ پھر بھی میں کوشش کروں گا۔ اس سمت میں کچھ بہتر کرنے کی۔
حسن امتیاز Jan 26, 2016 01:58pm
@RIZWAN : بہت شکریہ آپ کے تبصرہ کا یہ بلاگ سب قارئین کے لئے ہیں جن کو ان باتوں کا پہلے علم نہیں ان کے لئے یہ نئی ہیں۔ جب کہ باخبر افراد کو یقینا یہ سطحی ہی محسوس ہوگا۔ کش آن ڈلیوی : تقریبا تمام ہی کورئیر کمپنیز کر رہی ہیں پاکستان پوسٹ ۔ وی پی کے عنوان سے یہ سروس مہیا کرتا ہے ۔ جب کہ ایئر بلیو، ٹی سی ایس، وغیرہ کی بھی سروسز موجود ہیں۔ ‘‘ویب سائٹ کی تیّاری کے سلسلے میں چند مفت کمپنیوں کے نام‘‘ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ میں نے گذشتہ ہفتے اس کے لئے الگ بلاگ تحریر کیا تھا ۔ اس میں ان کمپیز کے لنک موجود ہیں۔ شاید آپ نے اس کا مطالعہ نہیں کیا۔ اس کا لنک یہ ہے جانیے: ویب ڈویلپمنٹ: آپ بھی یہ کاروبار کر سکتے ہیں http://www.dawnnews.tv/news/1032086
حسن امتیاز Jan 26, 2016 02:09pm
@عائشہ بخش : بلاگ پڑھنے اور پسند کرنے کا بہت شکریہ: اپنی ذاتی مصروفیات کے وجہ سے میرے لئے ممکن نہیں کہ میں انفرادی طور پر کسی کی رہنمائی کرسکوں ہاں اگر ان بلاگ کے سلسلے میں آپ کوکوئی معلومات درکار ہیں۔ تو آپ یہاں اپنے تبصرہ میں درج کردیں ۔ میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ اس طرح کم محنت سے ’’سب کی‘‘ رہنمائی ہوجائے گی۔
mustfa kamal new yourker Jan 26, 2016 06:26pm
@حسن امتیاز
AFTAB ALAM Jan 26, 2016 07:42pm
sir your blog is very informative now a days i am planning for launching an online business and these articles are extremely helpful, i recommends that the length of the blog is good it should not not be shorten because in this way one can get in-depth information, sir i have a question if some one want to sell digital products like ebooks or tutorials how can he be paid because the international payment processor paypal does not support pakistan is there any other alternative which we can use from Pakistan and how can we integrate our product with that payment processor?
talmeez Jan 26, 2016 08:12pm
ڈان کا یہ سلسلہ بہت اچھا ہے ۔ اس طرح کے مضمون آج کل کی ضرورت ہے ۔ ہم لوگوں کو کھانے پکنے اور فلم ستاروں کی خبریں کے علاوہ بھی کچھ معلومات درکار ہوتی ہے ۔
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 26, 2016 09:23pm
اچھی تحریر اور رہنمائی کے لیئے مفید ، نجیب احمد سنگھیڑہ صاحب کی باتوں میں بھی خاصہ وزن ہے ۔
RIZWAN Jan 27, 2016 02:36am
نجیب احمد سنگھڑ صاحب، آن لائن خریداری کے سلسلے میں آپ کے خیلات بجا۔ میں آپ کے اس تجزیے سے بلکل اتفاق کرتا ھون کہ پاکستان میں آن لائن خریداری کے ذریعہ جو اشیاء بیچی جاتی ہیں وہ اکثر وہ نہیں ہوتی جو دکھائی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس کچھ مشہور ویب سائٹ ایسی بھی ہیں جوکہ کسٹمرز کو اس قسم کی شکایات کے ازالے کے لئے RETURN BACK کی سہولت بھی مہیا کرتی ہیں، یعنی اگر آپ کو وہ چیز جو آپ نے خریدی ہے اور پسند نہ آئے تو اسے بغیر کسی اضافی چارجز کے وآپس بھی کیا جاسکتا ہے۔ (لیکن اس سہولت کی وجہ سے اُن اشیاء کی قیمت عام بازار سے دگنی ہو جاتی ہیں)۔ بہرحال پاکستان میں آن لائن کاروبار پہلے کی نسبت بہت ہی زیادہ پھل پھول رہا ھے، جس کی وجہ سے آن لائن سے متعلق دوسرے شعبے بھی اپنی سہولیات کو مزید بہتر بنا رہے ہیں، جیسا کہ /Payment System, Product Photography, Web Designing/Development وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
حسن امتیاز Jan 27, 2016 02:30pm
@AFTAB ALAM :بہت شکریہ آپ کے تبصرہ کا ڈیجٹل اشیاء کی فروخت کے لئے عرض یہ ہے کہ ای بکس /فورم،میگزین، کی ممبر شپ فیس وغیرہ کے لئے بھی دنوں طریقہ استعمال ہوسکتے ہیں۔ اول : گاہک آپ کے بنک اکاوئٹ میں پیسے جمع کروائے۔ گاہک بنک برانچ کے علاوہ نزدیکی ایزی پیسہ شاپ ذریعے کسی وقت پاکستان کے کسی بھی بنک اکاوئنٹ میں رقم جمع کرواسکتا ہے۔ دوم: کیش آن ڈلیوی کا : اس میں آپ ایک پرنٹ شدہ کاغذ (رسید) خط کی صورت میں گاہک کو ارسال کرسکتے ہیں۔ کورئیر کمپینی کا نمائندہ گاہک کو آپ کا خط دے کر اس سے مطلوب رقم لے کر آپ تک پہنچا دے گا۔
Ehtisham abbasi Jan 28, 2016 10:54am
ma i studient hon r ma achai r burai ko shamjhta hon r hamasa islami carachter k sath rakhna chata hon
Ehtisham abbasi Jan 28, 2016 10:55am
@zeban shah