مدرسے پر چھاپے سے رینجرز کی 'لاتعلقی'، سینیٹ کمیٹی برہم
اسلام آباد: کراچی میں واقع جامعہ احتشامیہ پر گذشتہ سال ستمبر میں چھاپے کے حوالے سے سندھ رینجرز کے تحریری جواب پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے.
سینیٹ میں قوانین کے طریقہ کار اور مراعات کی قائمہ کمیٹی کے اراکین نے مذکورہ مسئلے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
اس کے علاوہ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو مدرسے میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے والے دونوں رینجرز اہلکاروں اور ان کے افسر(جو کرنل کے عہدے سے کم نہ ہوں) کے ہمراہ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کو یقینی بنانے کی ہدایات بھی کیں ہیں۔
سینیٹ کمیٹی نے یہ اقدام متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکن مولانا تنویر الحق تھانوی کی جانب سے ان کے مدرسے پر رینجرز کے چھاپے کے حوالے سے پیش کی جانے والی ایک تحریک استحقاق پر اٹھایا.
مولانا تنویر الحق تھانوی نے الزام لگایا تھا کہ گذشتہ سال 19 ستمبر کو 250 رینجرز اہلکار کراچی میں قائم ان کے مدرسے اور اس کے رہائشی بلاک میں داخل ہوئے اور ان کے خاندان کے اراکین کے ساتھ برا برتاؤ کیا، جبکہ وہ خود اُس وقت حج کے لیے سعودی عرب میں موجود تھے۔
ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ طارق محمود نے کمیٹی کو بتایا کہ رینجرز نے ایک تحریری جواب جمع کروایا ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھیں اطلاعات ملی تھیں کہ کچھ مشتبہ افراد جمشید ٹاؤن میں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'رینجرز نے یہ دعویٰ کیا کہ انھوں نے مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن کے دوران علاقے کو گھیرے میں لیا تاہم وہ مدرسے میں داخل نہیں ہوئے تھے'۔
لیکن مولانا تھانوی کا اسرار تھا کہ رینجرز اہلکار مدرسے میں داخل ہوئے تھے، جس سے ان کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'میرا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے، پارٹی نے میرے والد کی خدمات کی وجہ سے مجھے سینیٹر تجویز کیا۔ رینجرز نے میرے مدرسے پر صرف اس لیے چھاپا مارا کیونکہ میں ایم کیو ایم کا سینیٹر ہوں۔ انھوں نے میرے بیٹے سے یہ بھی پوچھا کہ ہمارا تعلق کس فرقے سے ہے'۔
ان کا دعویٰ تھا کہ 'میرے بیٹے نے انھیں بتایا کہ ہم دیوبندی ہیں جس پر رینجرز حکام نے اُس سے سوال کیا کہ تم دیوبندی ہو کر کیسے الطاف حسین کی حمایت کرسکتے ہو ۔ یہ ایک سیاسی چھاپے کے سوا کچھ نہیں تھا'۔
مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ اُن کے والد کے سابقہ فوجی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ بھی اچھے تعلقات نہیں تھے تاہم اس زمانے میں بھی کسی نے مدرسے پر چھاپا نہیں مارا۔
انھوں نے کہا کہ 'میں اس حوالے سے ایک انکوائری کروانا چاہتا ہوں اور اگر چھاپہ غلطی سے مارا گیا ہے تو رینجرز تحریری طور پر اس کو تسلیم کرے'۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما عطاء الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کئی معاملات پر مولانا تھانوی کے ساتھ ان کے اختلافات کے باوجود، وہ اس معاملے پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انھوں ںے کہا کہ 'رینجرز کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ مکمل طور پر غلط ہے۔ یہ ایک یا 2 اہلکاروں کی بات نہیں ہے، 200 سے 205 اہلکار مدرسے میں آئے اور اساتذہ کے گھروں میں داخل ہوئے'۔
'تحریک استحکاق میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ رینجرز اہلکار سکندر اور ذوالفقار نے مولانا تنویرالحق تھانوی کے خاندان کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک روا رکھا'۔
یہ خبر 26 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں