Dawnnews Television Logo
اپنے سارے میچز غیر ملکی میدانوں میں جیت کر وہ ملک کے سب سے زیادہ کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان ثابت ہوئے

عروج، زوال، پھر عروج: مصباح کی کہانی

2006 میں جب وہ کرکٹ چھوڑنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے تھے تو اگلے ہی سال انہیں ورلڈ ٹی 20 کے لیے بھیج دیا گیا۔
اپ ڈیٹ 06 اپريل 2017 12:57pm

مصباح ان باصلاحیت کھلاڑیوں میں سے نہیں ہیں جو اچانک دنیائے کرکٹ میں آئے اور کم عمری میں ہی بین الاقوامی میچز میں جلوہ گر ہو کر یہ عندیہ دے دیا کہ وہ آئندہ دنوں میں کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی بن سامنے آئیں گے۔

وہ نہ مشتاق محمد، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس یا شاہد آفریدی تھے اور نہ ہی محمد عامر جیسے کھلاڑیوں کی طرح تھے۔ بلکہ ان کرکٹرز کے برعکس وہ لڑکپن اور اوائلِ نوجوانی میں بین الاقوامی کرکٹ میں دور دور تک نظر نہیں آئے۔

2001 میں 27 برس کی عمر میں جب وہ بالاخر پاکستان ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنے تب ان کی قابلیت اور ہنر کے بارے میں کچھ بھی 'فطری' نہیں تھا۔

پھر بھی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سابق پاکستانی کپتان اور آل راؤنڈر عمران خان کی ہی طرح مصباح بھی تہہ در تہہ اور محنت کرتے ہوئے عظیم کہلانے کے رتبے پر جا پہنچے؛ مگر یہ بات بھی واضح رہے کہ عمران خان نے اپنا پہلا میچ 18 برس کی عمر میں کھیلا تھا۔

پڑھیں: مصباح، یونس فٹنس میں سب سے آگے

پھر بھی 6 سالوں میں مصباح نہ صرف پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سب سے زیادہ ماہر مڈل آرڈر بیٹسمین بن کر سامنے آئے بلکہ پاکستان کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بھی ثابت ہوئے۔

مگر بطور ایک بیٹسمین اور کپتان اس عروج کے حصول سے جڑے کئی سارے عناصر (ان میں کچھ تو زیادہ تر انوکھے ہیں) ہیں جو ان کی کہانی کو کافی خاص بنا دیتے ہیں۔

عروج کی داستان

مصباح کی کہانی صرف ایک خاموش، فکرمند ذہن اور دوسروں کو سمجھنے کا مزاج رکھنے والے شخص کی نہیں ہے، جو انتہائی محنت اور مناسب ڈپلومیسی کے ساتھ آہستہ آپستہ کرکٹ کا ستارا بن کر ابھرے۔

اور نہ صرف اس کھلاڑی کی کہانی ہے جس نے اہنے 'پرانے زمانے' کے کرکٹرز، سالوں تک اپنے من موجی ہم عصروں کی جانب سے بار بار کی جانے والی تنقید، اور ٹی وی چینلز کے طویل تبصروں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔ اس دوران انہوں نے میچز میں زیادہ سے زیادہ اسکور بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، خاص طور پر ایسے موقعوں پر جب اسکور کی شدید ضرورت بھی ہوتی تھی۔

بلاشبہ ان تمام چیزوں نے دھیرے دھیرے پاکستان کرکٹ کے عروج پر پہنچنے اور کرکٹ کا ایک ستارہ بننے میں ان کی مدد کی، اور انہیں حنیف محمد، فضل محمود، ماجد خان، آصف اقبال، مشتاق محمد، عمران خان، جاوید میانداد، عبدالقدیر، انضمام الحق جیسے عظیم کھلاڑیوں کی صف میں شامل کر دیا۔

مگر ان کی کہانی میں جو چیز انہیں پاکستان میں ان کے ممتاز ہم عصر اور دیگر ممالک کے کرکٹ کے زبردست کھلاڑیوں سے واقعی منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے حقیقت ہے کہ کرکٹ میں وہ (دیر سے) بطور بیٹسمین اور کپتان ایسے عرصے میں سامنے آئے جب پاکستان کی کرکٹ مشکلات کی زد میں تھی؛ اسپاٹ فکسنگ کی وجہ سے بکھری ہوئی تھی اور شدید اندرونی کشمکش کا شکار تھی۔

وہ ایسا دور تھا جب ملک کو اس کڑوی حقیقت کا سامنا تھا کہ (2009 کے بعد) کوئی بھی ملک پاکستان میں دورہ کرنے کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز حقیقت یہ تھی کہ مصباح، کرکٹ سے دیوانگی رکھنے والے ملک کی ٹیم کی کپتانی کر رہے تھے جو اپنے وجود کی بقا کی سست مگر افراتفری سے بھرپور اندرونی جنگ لڑ رہا تھا؛ دہشت گرد حملوں اور بم دھماکوں میں الجھا ہوا تھا جس کے نتیجے میں 2004 سے 2014 تک 60 ہزار معصوم شہری، فوجی اہلکار، پولیس اہلکار اور سیاستدان جاں بحق ہوچکے تھے۔

جنگی عہد کا کپتان

جب ملک میں یہ سب جاری تھا اس دوران مصباح ایسی پاکستانی ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے جو اپنے میچز غیر ملکی میدانوں میں (زیادہ تر عرب امارات میں) کھیلنے پر مجبور تھی۔

متحدہ عرب امارات میں جہاں تارک وطن پاکستانیوں کی اچھی خاصی آبادی موجود ہے، وہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک حد تک 'ہوم گراؤنڈ' بن چکا تھا۔

مگر جنوری 2014 میں مصباح سے دبئی میں ایک طویل انٹرویو کے بعد انہوں نے کہا کہ:

'عرب امارات میں کھیلنے اور ملک میں کھیلنے کے درمیان کچھ بھی یکساں نہیں ہے۔ ہم یہاں سیاحوں کی طرح آتے ہیں اور ہم میں سے ہر ایک کو امارات آنے کے لیے ویزا کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہاں کس طرح پچ تیار کرنی ہے، اس پر میرا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ دو مختلف ملکوں کی ٹیمیں ایک غیر جانبدار میدان میں کھیل رہی ہوں۔ ہمارے یہاں گھر نہیں ہیں جہاں میچ کے بعد لوٹ کر جائیں۔ ہم یہاں مسلسل ہوٹلوں میں رہتے ہیں اور ہمارے گھر والے ہمیشہ ہمارے ساتھ نہیں ہوتے۔ ہم بھی یہاں کسی دورے پر آئے ہوئی ٹیم کی طرح ہیں بالکل ہماری مخالف ٹیموں کی مانند۔'

پڑھیں: مصباح الحق: جنگی عہد کا کپتان

انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے ملک میں کسی ٹیسٹ میچ میں ٹیم کی سربراہی نہیں کی اور نہ ہی ایسے میدانوں اور تماشائیوں کے درمیان کھیلا جن سے کھلاڑی زیادہ آشنا ہوتے۔

پھر بھی اپنے سارے میچز غیر ملکی میدانوں میں جیت کر انہوں نے خود کو ملک کا کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان ثابت کیا، اور ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو کرکٹ کے عظیم کپتان بھی نہیں کر پائے۔

دبئی اپنا وطن تو نہیں۔
دبئی اپنا وطن تو نہیں۔

جب ان سے کہا گیا کہ جب وہ عرب امارات میں کھیلتے ہیں تو کیا انہیں 'ہوم ایڈوانٹیج' ہوتا ہے؟ اس سوال پر وہ ہلکا سا مسکرائے اور پھر کہنے لگے: "ہوم وہ ہوتا ہے جہاں آپ کا گھر ہو۔ ہوم وہ نہیں ہوتا جہاں جانے کو صرف ہوٹل ہی ہوں؛ آدھے خالی میدان ہوں، اور پچ کے بارے میں آپ بالکل غیر یقینی ہوں۔"

اس لیے مصباح کی غیر معمولی اور ایک حد تک انوکھی کہانی ایک ایسے بیٹسمین کے بارے میں ہے جس نے کافی دیر سے کرکٹ کھیلنا شروع کیا؛ جب ان کو ٹیم کو شامل کیا گیا تب تک وہ 27 برس کے ہوچکے تھے؛ اور جب انہیں ڈراپ کیا گیا تو اگلے پانچ سالوں تک ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا؛ اور پھر ٹی 20 فارمیٹ کے پہلے ورلڈ کپ کے دوران اچانک ہی ملک کی ٹی 20 ٹیم میں شامل کر لیا گیا؛ جس میں انہوں نے بہترین کھیل پیش کیا اور پاکستان کو فائنل میں فتح کے قریب لا کھڑا کر دیا؛ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں خود کو مضبوط رکھا؛ پھر دوبارہ ڈراپ کیے گئے۔ وہ بھلا ہی دیے گئے تھے مگر پھر اچانک ہی 2010 میں ان کو یاد کیا گیا اور 36 برس کی عمر میں انہیں کپتان بنا دیا گیا۔

شاندار واپسی

مگر یہ وہی وقت ہے جب ان کی کہانی میں کئی ایسے موڑ آ جاتے ہیں جو اس کہانی کو کافی منفرد بنا دیتے ہیں۔ 2014 میں (دبئی میں) سابق پاکستانی کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین معین خان (اس وقت وہ ٹیم کے مینیجر تھے) نے ایک کافی دلچسپ بتائی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ غیر مستحکم پڑ گئے شعیب ملک نے مصباح کو گمنامی سے نکالا اور ٹیم میں واپس بلالیا۔

2007 میں شعیب ملک کو انضمام الحق کی جگہ بطور کپتان مقرر کیا گیا تھا، جن کی ٹیم کو ویسٹ انڈیز میں ورلڈ کپ کے دوران بدترین شکست ہوئی تھی۔ انضمام ریٹائر ہوئے اور نوجوان، قابل اور کسی حد تک چیلنجنگ ملک کو ٹیم کا نیا کپتان مقرر کر دیا گیا ۔

جب ٹیم جنوبی افریقا میں ہونے والے پہلے ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے نامزد ہوئی تو شعیب ملک نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت کے 33 سالہ مصباح کو ٹیم میں شامل کیا جائے؛ اور وہ بھی محمد یوسف جیسے تجربہ کار نمایاں کھلاڑی کی جگہ پر ان کو شامل کیا جائے۔

یوسف کی ٹیم سے بے دخلی پر مداحوں اور میڈیا میں ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ سلیکٹرز اس بارے میں خاصے غیر یقینی تھے کہ ملک کیوں مصباح کو شامل کروانا چاہیں گے، ایک ایسا بیٹسمین جسے 2002 میں ترک کر دیا گیا تھا اور جسے کافی حد تک بھلایا جا چکا تھا — تاہم مصباح ڈومیسٹک کرکٹ جاری رکھے ہوئے تھے۔

معین خان نے مجھے بتایا کہ ملک مصباح پر نظر رکھے ہوئے تھے اور 'ان کی جدید اسٹروک اور ان کی مضبوط گرفت سے متاثر تھے۔'

. مصباح کی واپسی ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی: ٹی 20 ورلڈ کپ 2007 میں ہندوستان کے خلاف فائنل میں ناکامی نے مصباح کو پریشان کر دیا.
. مصباح کی واپسی ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی: ٹی 20 ورلڈ کپ 2007 میں ہندوستان کے خلاف فائنل میں ناکامی نے مصباح کو پریشان کر دیا.

یہ سچ ہے کیونکہ جب شعیب ملک کو 2009 کے آخر میں ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کیا جا چکا تھا، تو انہوں نے ون ڈے اور ٹی 20 کرکٹ میں بہتر کارکردگی پیش کرنی شروع کر دی تھی۔ تب مصباح نے 2015 میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں انہیں یاد کیا تھا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا، تو مصباح نے بتایا کہ جہاں ملک (محدود اوورز کی کرکٹ میں) بہترین بیٹنگ فارم میں ہیں وہاں وہ (ملک) ان میں سے ایک تھا جنہوں نے 2007 کی ٹی 20 ٹیم میں ان (مصباح) کی شمولیت کی خاطر بورڈ اور تنقید نگاروں کا سخت مقابلہ کیا۔

معین نے مجھے یہ بھی بتایا کہ مصباح کبھی کوئی بغض نہیں پالتا، مگر وہ کسی کے ہمدردانہ عمل کو بھی نہیں بھولتے: 'اگر وہ دیکھتے ہیں کہ ان سے اتفاق نہیں کیا جا رہا یا ٖغیر منصفانہ طور پر ان پر تنقید کی جا رہی ہے تو وہ خاموشی سے وہاں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ مگر کسی کی سخاوت یا نرم دل اقدام کو سراہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔'

تو آخر کس طرح اپنی ذات میں رہنے والے آدمی نے ٹیم میں تیسری بار (2010) اپنی واپسی کی اور بظاہر انا میں پھنسی، اندرونی لڑائیوں میں الجھی اور اسکینڈلز سے داغدار ٹیم کو ایک مضبوط ٹیسٹ کرکٹ ٹیم بنایا، جو آج بھی ٹیسٹ ورلڈ رینکنگ میں بالائی سطح پر نمایاں نظر آ رہی ہے؟

مصباح نے ایک اور تجربہ کار کھلاڑی اور ٹیم کے بڑے سہارے یونس خان کے بارے میں با رہا حوالے دیے کہ وہ بھی ہمدرد دل رکھنے والی شخصیت ہیں جنہوں نے ان (مصباح) کی ٹیم میں بطور بیٹسمین اور بطور کپتان واپسی میں مدد کی۔

یونس خان مصباح کی انتہائی محنتی اور 'خوشگوار' آدمی کے طور پر بارہا تعریف کر چکے ہیں۔ تو یونس خود بھی تو ایسی شخصیت کے مالک ہیں۔ مگر مصباح کے برعکس یونس کی بارہا کرکٹ بورڈ، میڈیا اور اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے نوک جھونک بھی ہوئی؛ بلکہ جب وہ کپتان تھے تب انہوں نے کھلاڑیوں کی شدید بغاوت کا سامنا بھی کیا، مشتبہ طور پر جس کی سربراہی شاہد آفریدی کر رہے تھے۔

مصباح واضح انداز میں یونس خان پر کافی زیادہ انحصار کرتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے یونس خان کو ہینڈل کرنے اور ان کی نظروں میں اپنی عزت بنانے کا مناسب راستہ کھوج لیا ہے۔

پی سی بی کے میڈیا مینیجر ندیم سرور، جنہوں نے دبئی میں مصباح سے میرے انٹرویو کو ممکن بنایا، نے مجھے بتایا کہ کمزور ٹیم کی بہترین انداز میں کپتانی کرنے کے پیچھے دو وجوہات ہیں: 'ان کی بلے بازی کا مزاج۔ جہاں باقی آوٹ ہوتے رہتے ہیں وہاں وہ وکٹ پر جمے رہتے ہیں۔ اس طرح انہیں دیگر کھلاڑیوں کی جانب سے کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے؛ خاص طور پر نوجوان کھلاڑیوں کی جانب سے احترام ملا ہے۔'

یونس خان مصباح کی ٹیم کے نہایت اہم کھلاڑی رہ چکے ہیں
یونس خان مصباح کی ٹیم کے نہایت اہم کھلاڑی رہ چکے ہیں

ٹیم کا اعتماد حاصل کیا

دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی انتظامی صلاحیت نہایت ہی عمدہ ہے۔ وہ ہر ایک کھلاڑی کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ہر کھلاڑی سے اس کے مطابق پیش آتے ہیں۔ وہ ان سب کو تحمل سے سنتے ہیں۔

سرور کے مطابق مصباح کی کپتانی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی تھا/ہے کہ وہ اپنی مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں کہ سینئرز کو اپنی عزت جونیئرز سے ہی کمانی ہوگی، اور اسے اپنا حق نہیں سمجھا جا سکتا۔

سرور نے بتایا کہ: 'کوئی دور تھا جب سینئرز فرعونوں کی طرح پیش آتے تھے، نوجوان کھلاڑیوں کو اپنے قابو میں رکھتے اور ان سے سینئرز کے معمولی سے معمولی کام کی توقع کی جاتی تھی۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ: 'مصباح نے اس طریقے کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ اور یونس کافی قابل رسائی ہیں اور نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح پیش آتے ہیں۔ اظہر علی، اسد شفیق، شان مسعود اور دیگر نوجوان کھلاڑی ان (مصباح) سے والد کی حیثیت سے پیش آتے ہیں۔

نوجوان کھلاڑی مصباح کا بہت احترام کرتے ہیں
نوجوان کھلاڑی مصباح کا بہت احترام کرتے ہیں

اس طرح ایک سوبر، منکسر، باعزم بڑی عمر رکھنے والا شخص عظیم سربراہ بن کر سامنے آئے۔ مگر معین نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک رخ ہے جو کہ بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ انٹرویو میں مصباح نے خود اس رخ کو ریکارڈ کرنے کی اجازت دی جب انہوں نے بتایا کہ بطور ایک شخص وہ اتنے سنجیدہ نہیں ہیں جتنا باقی تمام لوگ ان کے بارے میں سوچتے ہیں۔

ایک نوجوان پی سی بی افسر (بدقسمتی سے ان کا نام میرے ذہن سے نکل چکا ہے) جو (2014 میں) دبئی میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دوسرے ٹیسٹ کے دوران تیزی سے پاکستان کے ڈریسنگ روم سے باہر نکلا تھا، اور مجھے پریس کارڈ ہاتھوں میں تھمایا تھا۔ اس افسر نے مجھے بتایا کہ کھلاڑیوں کو مصباح کا حس مزاح کافی پسند ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'وہ اصل میں کافی پر لطف ہیں، ان کا انداز مزاح انور مقصود جیسا ہے(!) ۔ ۔ ۔ وہ خاموشی سے کسی پر پُرمزاح طنز کرتے جو انتہائی مزاحیہ تو ہوتا مگر کبھی بھی ناگوار نہ ہوتا۔'

انہوں نے بتایا کہ مصباح سعید اجمل کے کافی قریب ہیں اور اکثر دونوں آپس میں طنز و مزاح کے جملوں کا تبادلہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ حفیظ اور شعیب ملک بھی ان کے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اظہر، شان اور اسد انہیں اپنے بڑے بھائی کی طرح پسند کرتے ہیں۔

ان کے مطابق یونس اور مصباح دونوں ایک دوسرے کا انتہائی عزت و احترام کرتے ہیں مگر وہ اتنا گھلے ملے نہیں ہیں۔

آفریدی کے بارے میں کیا خیال ہے؟

انہوں نے جواب دیا ''ان کے آپس میں صرف رسمی تعلقات ہیں۔ اور کچھ نہیں''۔ انہوں نے مجھے یہ باتیں 2014 میں کہی تھیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں آفریدی مصباح کی کافی تعریف کر چکے ہیں کہ مصباح ایک بہت ہی شائستہ رویہ رکھنے والا کھلاڑی ہے۔'

دو قریبی دوست: مصباح سعید اجمل (جو اس وقت فارم میں نہیں ہیں اور ٹیم سے باہر ہیں) کے ساتھ
دو قریبی دوست: مصباح سعید اجمل (جو اس وقت فارم میں نہیں ہیں اور ٹیم سے باہر ہیں) کے ساتھ

دوبارہ بات کرتے ہیں مصباح کی موجودہ مقبول انتظامی ہنرمندی کی، میں یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ شعیب اختر جیسے انتہائی جذباتی اور پھٹ پڑنے والے کھلاڑی مصباح کے زیر کپتانی کھیلتے تو کس طرح کھیلا ہوتا۔

کرکٹ کے زیادہ تر ماہرین اور حتیٰ کہ اختر خود یہ مانتے ہیں کہ وہ (اختر) انضمام کی جانب سے بری طرح ہینڈل کیے گئے تھے۔ یوں لگتا کہ انہیں کچھ اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان جیسے کھلاڑی کو کس طرح مینیج کرنا ہے۔

مشتاق محمد اور عمران خان جیسے پاکستانی کپتان غیر مستقل مزاج اور من موجی کھلاڑیوں کو کامیابی کے ساتھ بہت ہی ذہانت اور متاثر کن انداز میں ہینڈل کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ مشتاق سرفراز نواز اور وسیم راجہ جیسے نرالے کھلاڑیوں کے حوالے سے وہاں کامیاب ہوئے جہاں دوسرے ناکام ہو چکے تھے۔

عمران خان بھی سرفراز نواز اور عبدالقدیر جیسے موڈی کھلاڑی کو ہینڈل کرنے میں کافی مؤثر ثابت ہوئے، مگر آپ راجہ کے حوالے سے اتنا زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

اختر نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ عمران خان کی زیر کپتانی کرکٹ کھیلے ہوتے۔

تو اختر مصباح کی ٹیم میں ہوتے تو ان کی زیر کپتانی کس طرح کھیلتے؟ پچھلے سال کی اوائل میں میں نے یہ سوال ایک سابق میڈیم پیس باؤلر سے کیا جنہوں نے *1980 کی دہائی میں پاکستان کرکٹ میں نمائندگی کی تھی۔

انہوں نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ مصباح شعیب جیسے کردار کو برداشت کر پاتا، جس طرح انضی سے ہوا۔ مگر کون جانتا ہے کہ جس طرح کا طرز عمل مصباح کا ہے، ہوسکتا ہے کہ شعیب کو وہ سمجھ پاتے اور ان کو ٹھنڈا رکھنے میں کامیاب رہتے۔'

اختر مصباح پر بارہا تنقید کر چکے ہیں اور اسی طرح محمد یوسف نے بھی ان پر کئی بار تنقید کی ہے۔ مگر جس طرح آفریدی تنقید کرنے والے سابق کرکٹرز کو منہ توڑ جواب دیتے ہیں ہے (کبھی کبھار تو قابلِ جواز طور پر بھی) اس طرح مصباح نے کبھی ایک بار بھی ان لوگوں کو براہ راست جواب نہیں دیا جو ان پر نکتہ چینی کرتے رہے۔

جس طرح انہوں نے مجھے انٹرویو میں بتایا کہ وہ اپنی کارکردگی پر گفتگو ہونے دیتے ہیں مگر تب بہت مایوسی ہوتی ہے جب ان کے خلاف بلا جواز بیانات آئیں، جن کی وجہ سے ان کی بیوی اور ماں مایوس ہوجاتی ہیں۔

2014 میں جب مصباح کا دبئی میں انٹرویو کیا تھا
2014 میں جب مصباح کا دبئی میں انٹرویو کیا تھا

مصباح کے لیے ان کے گھر والے ہی سب کچھ ہیں۔ وہ اپنی کزن عظمیٰ سے رشتہ ازدواج میں بندھے ہوئے ہیں، جو ان کے مقابلے کہیں زیادہ اپنے خیالوں کی ترجمان، پراعتماد اور متحرک شخصیت کی حامل ہیں۔ وہ ان کی انتہائی بڑی حامی رہی ہیں۔

جب بھی مصباح جس اسٹیڈیم میں کھیل رہا ہوتا ہے، وہاں وہ (اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ) اکثر کھڑی دکھائی دیتی ہیں. وہ خوشی میں اچھلتی ہیں، اور جتنا ہوسکے اتنا زور سے تالیاں بجاتی ہیں، اور کبھی کبھی جب ان کے شوہر کرکٹ کا سنگِ میل عبور کر رہے ہوں، تو ایک دو سیٹیاں بھی مار دیتی ہیں.

اس لمحے میدان میں جب ان کے شوہر شاندار کھیل کا مظاہرہ پیش کر رہے ہوتے ہیں، تب ان کی خوشی کا اظہار محض اظہار نہیں ہوتا بلکہ ایک گہری خوشی کا منظر ہوتا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ جب 2002 میں جب انہیں پہلی بار ڈراپ کیا گیا تب سے وہ سالوں تک انہیں اداسیوں میں گھرا دیکھ چکی ہیں۔ انہوں نے (2007) میں ان کی واپسی دیکھی لیکن کچھ سالوں بعد ایک بار پھر انہیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا.

گو کہ مصباح نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ ان کے بارے میں جو بھی لکھا یا کہا جاتا ہے، وہ اسے بہت کم ہی پڑھتے یا سنتے ہیں مگر ان کی بیوی اور ماں ان باتوں کو نظر انداز نہیں کر پاتیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں ان کے خلاف غیر منصفانہ اور بغض پرور تنقید سے کم تکلیف پہنچتی بلکہ اس وقت تکلیف زیادہ ہوتی ہے جب اس طرح ان کی بیوی اور ماں کے بلند حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔

ایک مضبوط بندھن: مصباح اپنی اہلیہ عظمیٰ کے ساتھ۔
ایک مضبوط بندھن: مصباح اپنی اہلیہ عظمیٰ کے ساتھ۔

2014 میں پاکستان بمقابلہ سری لنکا کی ٹیسٹ سریز کے تیسرے میچ کے دوران مصباح اور اظہر نے ٹیم کو 60 سے بھی کم اوورز میں 350 رنز بنا کر سریز کو ڈرا کروانے میں مدد فراہم کی. اس میچ کے آخر میں ایک ٹی وی چینل نے جلد ہی مصباح کی والدہ کا ان کے آبائی شہر میانوالی میں انٹرویو لیا۔

جس میں انہوں نے کہا کہ: 'خدا کے فضل سے مجھے معلوم تھا کہ میرے بیٹے کی سخت محنت ایک دن ضرور وصول ہوگی۔ وہ ایک ثابت قدم شخص ہے۔ جب وہ بچہ تھا تب بھی ثابت قدم رہتا تھا۔ وہ کبھی ہار نہیں مانتا۔ وہ ایک پیار کرنے والا اور اچھا انسان ہے۔'

پھر وہ خود کو روک نہ پائیں اور مصباح پر تنقید کرنے والوں پر پھٹ پڑیں: 'مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیوں کچھ لوگ اس پر اتنی تنقید کرتے ہیں۔ ان کے پاس اب کچھ کہنے کو ہے؟'

مگر ایک ایسا بیٹسمین جو لگاتار پچھلے 6 سالوں میں بڑا اسکور دے چکا ہو، اسے کیوں 5 سالوں تک ٹیم سے باہر رکھا گیا، جب کہ وہ کافی جوان تھا؟

سالوں سے اندرونی منظر نامے میں رہنے والوں کی جانب سے تحریر کی گئی اخباری رپورٹوں، کالموں اور یہاں تک کہ کچھ کتابوں میں سب ہی نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ ایک بہتر اور پڑھے لکھے کھلاڑی تھے. وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اپنا اعتماد ظاہر نہیں کرتے اور اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں. یہی وجہ تھی کہ وہ انضمام الحق کو ناقابل قبول تھے کیونکہ وہ کھلاڑیوں کو بااعتماد رہنے پر زور دیتے تھے۔

مگ مصباح نے ہمیشہ ہی اس چیز پر یقین کرنے سے انکار کیا، کچھ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ان کا ڈپلومیٹک مزاج ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ کوئی بھی کپتان ایک اچھا کھلاڑی باہر رکھنا نہیں چاہے گا اور یہ کہ ٹیمیں کپتانوں کی جانب سے کھلاڑیوں کے ہنر کو دیکھتے ہوئے منتخب کی جاتی ہیں، نہ کہ کپتانوں کی ذاتی پسندی یا ناپسندی کے مطابق.

تو کیا وہ 2002 سے 2007 تک اتنے ہنر مند کھلاڑی نہیں تھے؟

اس پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کا مڈل آڈر کچھ بہترین بیٹسمینوں سے بھرپور تھا اور یہی وجہ تھی جس نے انہیں ٹیم سے باہر رکھا ہوا تھا۔

ستم ظریفی کی بات ہے کہ انضمام ۤآج چیف سلیکٹر ہیں اور انہوں نے ویسی ہی ٹیم مصباح کے حوالے کی جو انہوں نے مانگی تھی (انگلینڈ کے دورے کے لیے)۔

مصباح کی والدہ کی جانب سے نقادوں پر سخت تنقید کرنے کے دو سال بعد مصباح الحق نے اپنی صحتمند بیٹنگ اوسط اور زبردست پہچان کے ساتھ ملک کا کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بن کر دکھانے کے عزم کو جاری رکھا۔

بلاشبہ انہوں نے جو پہچان حاصل کی ہے، اس میں استقامت سے کھیل پیش کرنے اور 2010 میں مشکلات اور عدم اطمینانی سے گھری ٹیم کو متحد اور مضبوط ٹیسٹ اسکواڈ میں ڈھالنے میں سالوں تک گمنامی میں حسرت زدہ رہنے کا کافی بڑا کردار ہے۔

اپنی قیادت میں ٹیم کو مضبوط کیا
اپنی قیادت میں ٹیم کو مضبوط کیا

جی ہاں یہاں پر یہ بھی قابل ذکر ہوگا کہ مصباح کن حالات میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ وہ ایسا وقت جب ملک اپنی وجود کی بقا کے بحران کی زد میں تھا؛ ان حالات ملک میں پرتشدد واقعات اور خونریزی ہو رہی تھی اور پاکستان کو ایک ناگوار اور ایک ناکام ریاست کے طور پر سمجھا جانے لگا تھا۔

کرکٹ ہیروز منظر عام سے غائب ہو چکے تھے زیادہ شہرت حاصل نہیں کر پاتے. پچھلے دو سالوں میں بالخصوص مصباح نے ابھرنا شروع کیا اور انہیں ملک میں ایک اصلی ہیرو کے طور پر تصور کیا جانے لگا جس کی اس ملک کو شدت سے ضرورت تھی۔

جب انگلینڈ میں پہلے ٹیسٹ میچ میں مصباح نے شاندار سینچری داغی، تو مبارکباد کے ہزاروں ٹوئیٹس کیے گئے. ان ٹوئیٹس کا جائزہ لینے کے دوران ایک دوست کا کافی دلچسپ کمنٹ دیکھا۔

پڑھیں: مصباح 82 سال میں سنچری بنانے والے معمر ترین کرکٹر

دوست نے کہا: 'مصباح کو بڑی سطح پر 2014 کے آواخر میں بطور ایک ہیرو تصور کیا جانے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل راحیل شریف نے کمربستہ ہوکر ہر کسی کو دہشتگردوں کے خلاف بڑی سطح پر آپریشن کرنے پر راغب کیا۔ جیسے جیسے آپریشن زور پکڑتا گیا ویسے ویسے مصباح کا رتبہ بھی بلند ہوتا گیا۔ وہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے پاک فوج کے لیے راحیل شریف۔ خدا انہیں اور بھی آگے بڑھائے.'

مصباح کے عروج، زوال، عروج، زوال اور پھر عروج کی سلسلہ وار ترتیب

1980 کی دہائی: کبھی 'ٹیپ ٹینس' اور کبھی باقاعدہ کرکٹ کھیلتے رہے۔ والدین انہیں بہتر تعلیم دلوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

'ٹیپ ٹینس کرکٹ' کے کنگ آف میانوالی۔
'ٹیپ ٹینس کرکٹ' کے کنگ آف میانوالی۔

کالج میں داخلہ لینے سے کچھ عرصہ قبل ان کے گھر میں کھینچی گئی تصویر
کالج میں داخلہ لینے سے کچھ عرصہ قبل ان کے گھر میں کھینچی گئی تصویر

1990 کی دہائی: یونیورسٹی میں بطور ایم بی اے طالب علم داخل ہوئے۔ 1998 میں 24 برس کی عمر میں فرسٹ کلاس میچ میں ابتدا کرنے سے پہلے کبھی کبھی کرکٹ کلب کے لیے کرکٹ کھیلا۔

۔
۔

2001: پاکستان کے لیے ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ میچ میں ڈیبیو کیا۔

2002: فارم میں نہ ہونے کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا۔

۔
۔

2002: ڈراپ ہونے سے پہلے مصباح کا آخری میچ، جس کے بعد 5 برس تک ایک بار بھی دوبارہ کھیلنے کا موقعہ فراہم نہیں کیا گیا۔

2003 سے 2007 تک: وہ ٹیم سے باہر رہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ جاری رکھا۔ 2006 کے اواخر میں ترک کرنے کا سوچ رہے تھے۔

2007 سے 2008: 33 برس کی عمر میں ڈرمائی انداز میں واپسی کی۔ ٹی 20 ورلڈ کپ اور ہندوستان کے خلاف سیریز میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ پاکستان کے نائب کپتان بنا دیے گئے۔

2007 میں دوسری بار واپسی کے دوران بیٹنگ کرتے ہوئے
2007 میں دوسری بار واپسی کے دوران بیٹنگ کرتے ہوئے

2009: ایک بار پھر اپنی فارم کھونا شروع کر دی۔ دوبارہ ڈراپ کر دیے گئے۔

2010: انہیں غیر متوقع طور پر ٹیم کے لیے یاد کیا گیا اور کپتان بنا دیا گیا۔

2011 سے 2013 تک: ٹیم کے سب سے زیادہ مستحکم بیٹسمین بن گئے۔ وہ واحد کپتان تھے جن کی رہنمائی میں پاکستان نے انگلینڈ کو سریز میں تین صفر سے شکست دی۔ 'زیادہ دفاعی' انداز میں کھیلنے کی وجہ سے مسلسل تنقید کی زد میں رہے۔ ٹی 20 کی کپتانی سے استعفی دے دیا۔ ٹیسٹ اور ایک روزہ میچز میں برقرار رہے۔

انگلینڈ کے خلاف کلین سوئیپ۔
انگلینڈ کے خلاف کلین سوئیپ۔

2014 سے 2016: مستحکم بیٹنگ جاری رکھی۔ انہیں 'مین آف کرائسز' (مردِ بحران) کہا جانے لگا۔ شارجہ میں سری لنکا کے خلاف ریکارڈ ٹوٹل اسکور کا تعاقب کرنے میں مدد کی۔ بیٹنگ اوسط میں بلندی پر پہنچ گئے۔ 2015 میں ایک روزہ کرکٹ سے ریٹائر ہوئے۔ (20 میچز میں فتح کے ساتھ) پاکستان کے سب سے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بنے۔ ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ بورڈ کی جانب سے کریئر کی مدت 2016 میں ہونے والی انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز تک بڑھانے کی درخواست کی گئی۔ 42 برس کی عمر میں انگلینڈ میں اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں ہی سینچری بنانے میں کامیاب ہوئے۔

*شناخت درخواست پر مخفی رکھی گئی ہے۔