اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف برطانوی حکومت کو ٹھوس شواہد نہیں دیئے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں برطانوی ہائی کمشنر تھامسن ڈریو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ برطانوی ہائی کمشنر نے بتایا کہ الطاف حسین کے خلاف پاکستانی حکومت کا ریفرنس برطانیہ کو موصول ہو گیا ہے، تاہم پاکستان نے ایم کیو ایم قائد کے خلاف کاروائی کے لیے تاحال ٹھوس شواہد نہیں دیئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملاقات کے دوران برطانوی ہائی کمشنر نے واضح کیا کہ الطاف حسین کے خلاف کارروائی ٹھوس شواہد ملنے پر ہی کی جائے گی۔

مزید پڑھین:الطاف حسین کے خلاف کارروائی کیلئے برطانیہ کو ریفرنس

خورشید شاہ نے بتایا کہ الطاف حسین اب پاکستان کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں، لہٰذا برطانوی حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔

انہوں نے برطانوی ہائی کمشنر پرزور دیا کہ ان کا ملک کشمیر میں ہونے والے ہندوستانی مظالم کا نوٹس لے اور مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے عالمی سطح پر کردار ادا کرے۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ برطانوی ہائی کمشنر سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور اس میں بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کے معاملے پر بھی بات چیت کی گئی۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز پاکستانی حکومت نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف کارروائی کے لیے برطانیہ کو باضابطہ طور پر ریفرنس بھیجا تھا۔

ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق ریفرنس میں برطانیہ سے عوام کو تشدد پر اکسانے اور بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا، جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الطاف حسین نہ صرف برطانوی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا ان کے خلاف برطانوی قوانین کے تحت کاروائی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ’الطاف حسین سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا وقت آگیا‘

ریفرنس کے ساتھ بانی متحدہ کی تقریر اور عوام الناس کو تشدد پر اکسانے کے شواہد بھی فراہم کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ الطاف حسین نے رواں ماہ 22 اگست کو کراچی میں کارکنوں سے خطاب کے دوران پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جبکہ کارکنوں کو میڈیا ہاؤسز پرحملوں کے لیے اکسایا تھا، جس کے بعد کارکنوں نے مشتعل ہوکر نجی چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا تھا۔

کراچی میں خطاب کے بعد الطاف حسین نے 22 اگست کو ہی امریکا میں مقیم اپنے کارکنوں سے خطاب میں بھی پاکستان مخالف تقریر کی تھی، جس میں انھوں نے امریکا اور اسرائیل سے مدد مانگی تھی۔

ان تقاریر کے بعد الطاف حسین نے معافی بھی مانگی جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے اس لیے ایسی باتیں کیں جب کہ اس کے بعد ایم کیو ایم کے قائد نے پارٹی کے تمام اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دیئے تھے۔

ایم کیو ایم کے سینئر رہنما فاروق ستار نے الطاف حسین کی تقریر کے اگلے روز یعنی 23 اگست کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم قائد کے بیانات سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں ہی رجسٹرڈ ہے اس لیے بہتر ہے کہ اب اس کے فیصلے بھی پاکستان میں ہی کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پریس کانفرنس سے قبل الطاف حسین کو اعتماد میں نہیں لیا گیا'

23 اگست کے اعلان لاتعلق کے بعد گزشتہ ہفتہ 27 اگست کو فاروق ستار نے ایک اور پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے الطاف حسین سے قطع تعلقی کا اعلان کردیا۔

الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد سے ایم کیو ایم کو ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب کہ پولیس اور رینجرز نے سندھ خصوصاً کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے متحدہ کے مرکز نائن زیرو سمیت سندھ بھر میں دفاتر کو سیل کر دیا، جبکہ غیر قانونی طور پر قائم سیکٹر اور یونٹ آفسز کو مسمار کرتے ہوئے کراچی کے مختلف مقامات سے الطاف حسین کی تصاویر اور پوسٹرز بھی ہٹا دیئے گئے۔


نوٹ: اس سے قبل یہ رپورٹ غلطی سے برطانوی ہائی کمشنر کے حوالے سے چلائی گئی تھی کہ ’ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے الطاف حسین کے خلاف ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے‘ جسے اب درست کرلیا گیا ہے۔ اس غلطی پر ادارہ برطانوی ہائی کمشنر اور اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Aug 31, 2016 10:27pm
بات بالکل سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ جس ادارے یا عہدے نے یہ شواہد انگلستان کو بھیجے تھے کیا اسے برطانیہ کے قوانین کے بارے مٰیں کچھ ذرا سا بھی پتا نہیں تھا؟ یا یہ شواہد بغیر تیاری کے بھیج دیے گئے تھے؟ اور یا یہ بھیجا بھاجی صرف خانہ پری کے لیے کی گئی تھی۔ یعنی صرف عوام کو یہ دکھانے کے لیے کہ انتظامیہ نے کوئی کارروائی تو کی ہے؟ برطانیہ والے بھی یہ سوچتے ہونگے کہ پاکستان میں کس قسم کے لوگ حکومت کررہے ہیں۔