اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ کیا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمیشن قائم کیا جائے گا جو پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے انکشافات کی تحقیقات کرے گا۔

پاناما گیٹ کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کا جج کرے گا اور اسے سپریم کورٹ کے اختیار حاصل ہوں گے۔

ایک رکنی کمیشن کے قیام کا حتمی فیصلہ 7 نومبر کو سپریم کورٹ کی جانب سے ٹی اور آرز اور وزیر اعظم کے بچوں کے جوابات کا جائزہ لینے کے بعد کیا جائے گا۔

کیس کی سماعت 7 نومبر صبح ساڑھے 9 بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع کی تو وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید اور دیگر فریقین سماعت کے لیے عدالت عظمیٰ پہنچے۔

وزیر اعظم کا جواب

وزیر اعظم کا جواب سپریم کورٹ میں نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے پڑھ کر سنایا۔

وزیر اعظم کی جانب سے داخل کرائے جانے والے جواب میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ وہ بیرون ملک فلیٹس اور دیگر بتائی گئی جائیدادوں کے مالک نہیں ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف آف شور کمپنیوں کے مالک نہیں ہیں اور باقاعدگی سے ٹیکس قانون کے مطابق ادا کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: سپریم کورٹ نے فریقین سے ٹی او آرز مانگ لیے

وزیر اعظم کے جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ 2013 کے گوشواروں میں ان کے تمام اثاثے ڈکلیئر ہیں اور ان کا کوئی بچہ ان کے زیر کفالت نہیں ہے۔

وزیر اعظم نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت انہیں نااہل نہیں قرار دیا جاسکتا۔

جواب میں نواز شریف نے موقف اپنایا کہ وہ 16اور 16اے، 17اور17اے لندن جائیداد کے مالک یاطفیلی نہیں ہیں ، وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک نہیں رہے۔

جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کانام پانامہ پیپرز میں نہیں اور نہ کی ان پر کوئی الزام لگایاگیا، کسی عدالت نے نواز شریف کے خلاف آج تک کوئی کاروائی کی نہ کوئی فیصلہ دیا۔

یہ بھی کہا گیا کہ رکن قومی اسمبلی کی نا اہلی کا طریقہ کار آئین میں واضح طور پر درج ہے،عمران خان نے ذاتی حیثیت میں اسپیکر قومی اسمبلی یا الیکشن کمیشن کے پاس نواز زشریف کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا۔

وزیر اعظم کے جواب میں کہا گیا کہ نواز شریف کے خلاف درخواست جھوٹے، بے بنیاد اور غیر مصدقہ دستاویزات پر مبنی ہے، نواز شریف کے خلاف درخواست سیاسی مفادات کے لیے دائر کی گئی۔

وزیر اعظم کے بچوں کے جواب کہاں ہیں؟

عدالت نے وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی۔

سلمان اسلم بٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں وزیر اعظم کے بچوں کے جواب داخل کرانے کے لیے 7 روز کا وقت دیا جائے۔

جسٹس عظمت سعید نے وکیل سے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے تین بچوں کی جانب سے جواب کیوں جمع نہیں کرایا؟ آپ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں، اصل فریق کا تو جواب نہیں جمع کرایا گیا۔

سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ مریم صفدر، حسن اور حسین ملک سے باھر ہیں جواب داخل کرانے میں تھوڑا وقت لگے گا۔

اس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ کیا آئندہ سال جواب جمع کرائیں گے؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ملک میں جو موجود ہیں ان کا جواب تو جمع ہونے چاہیے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں پرانے ٹی او آرز ہی جمع کرائے جانے کا امکان

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر جواب جمع نہ کرایا تو الزامات تسلیم کرلیں گے۔

عدالت نے وکیل کی جانب سے 7 روز کی مہلت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مریم، حسن ,حسین اور کیپٹن (ر) صفدر کے جواب پیر تک سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مریم صفدر وزیر اعظم کی کفالت میں نہیں ہیں جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ یہ بات لکھ کر دے دیں۔

تحریک انصاف کے ٹی او آورز

تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد ٹی او آرز سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے ٹی او آرز میں شامل کیا گیا ہے کہ نیسکول اور نیلسن کمپنیاں کب بنائی گئیں، ان کا اصل مالک کون ہے، مریم نواز نے کب خریدیں۔

پی ٹی آئی کے ٹی او آر میں کہا گیا کہ لندن فلیٹس 1993 میں کس قیمت پر خریدے گئے، لندن میں رقم کب اور کن ذرائع سے منتقل کی گئی، اور نواز شریف نے 1982 سے 1996 تک کتنا انکم ٹیکس ادا کیا۔

تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ کیا وزیراعظم نے فلیٹس خریداری کے حوالے سے اسمبلی میں جھوٹ بولا، کیا اسمبلی میں جھوٹ بولنے کے بعد وزیراعظم صادق وامین رہے؟ کیا ان حقائق کی روشنی میں رکن اسمبلی نااہل ہو سکتا ہے؟

پی ٹی آئی کی جانب سے تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے 2 سوال اٹھائے گئے کہ کس اکاؤنٹ سے التوفیق کمپنی کو 32 ملین ڈالر دیئے گئے اور وزیراعظم کا بتائی گئی جائیداد حاصل کرنے میں کیا کردار تھا، مریم نواز مے فیر فلیٹس کی اکلوتی مالک کیسے بنیں۔

درخواستیں قابل سماعت قرار

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما لیکس کے حوالے سے دائر ہونے والی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیا۔

عدالت نے موقف اپنایا کہ یہ معاملہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے جبکہ رجسٹرار کی جانب سے درخواستوں پر لگائے جانے والے اعتراضات کو بھی مسترد کردیا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ فریقین نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔

شیخ رشید نے ٹی او آرز جمع کرادیئے

عدالت نے یکم نومبر کو تمام فریقین کو پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے اپنے ضابطہ کار (ٹی او آرز) جمع کرانے کی ہدایت کی تھی تاہم صرف عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے ٹی او آرز جمع کرائے۔

عدالت نے تمام درخواست گزاروں اور وزیر اعظم کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ پیر تک اپنے ٹی او آرز جمع کرائیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت کسی بھی فریق کے ٹی او آرز کو تسلیم کرنے کی پابند نہیں۔

تاخیری حربے

سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ 7 مہینے سے پاناما کی بات ہورہی ہے اور آج حکومت نے مزید وقت مانگ لیا۔

وزیر اعظم کو تین بچوں کے جواب داخل کرنے تھے لیکن نواز شریف کا جواب آگیا اور بچوں کا نہیں آیا حالانکہ اصل مسئلہ تو بچوں کا ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ بینچ کا نیب پر اظہار برہمی

انہوں نے کہا نواز شریف نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ وہ جواب دینے کے لیے تیار ہیں لیکن اب جب جواب مانگا جارہا ہے تو کیوں جواب نہیں دے رہے۔

بعد ازاں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے خطاب میں کہا کہ عدالتوں کا احترام ضروی ہے اور ہم نے سپریم کورٹ مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے لہٰذا اب فریقین کو عدالتی کارروائی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

اس موقع پر خواجہ سعد رفیق نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ دوغلے شخص ہیں، انہیں دھرنا اور احتجاج کرنے کے بجائے خیبر پختونخوا واپس لوٹ جانا چاہیے کیوں کہ انتخابات میں ڈیڑھ سال رہ گیا ہے اور فیصلہ صرف ووٹ کے ذریعے ہوگا۔

خرم نواز گنڈا پور اور نعیم الحق میں تلخ کلامی

عمران خان کی پریس کانفرنس سے قبل سپریم کورٹ کے باہر پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈا پور کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

خرم نواز گنڈا پور کی خواہش تھی کہ وہ پہلے پریس کانفرنس کریں جبکہ نعیم الحق نے انہیں یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی کہ پہلے عمران خان بات کریں گے۔

اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان بحث بھی ہوئی تاہم وہاں موجود شیخ رشید نے بیچ بچاؤ کرایا اور معاملے کو رفع دفع کیا۔

یکم نومبر کی سماعت

یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔

جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ پاناما لیکس کے حوالے سے درائر درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

گذشتہ ماہ 20 اکتوبر کو ان درخواستوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کی تھی۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ نے درخواستوں کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی تھی، جبکہ درخواستوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا تھا۔

یکم نومبر کو سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کمیشن کی سربراہی کون کرے گا اور اس میں کون ہوگا اس کا فیصلہ عدالت کرے گی اور دوسرے فریق کی رضامندی کے بعد عدالت کمیشن کے قیام کا فیصلہ کرے گی۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ مجوزہ کمیشن کو سپریم کورٹ کے مساوی اختیارات حاصل ہوں گے اور کمیشن عدالت عظمٰی ہی کو رپورٹ پیش کرے گا۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر فریقین ٹی او آرز پر متفق نہ ہوئے تو عدالت اپنے ٹی او آرز طے کردے گی،

حکومت کا جوڈیشل کمیشن کے قیام پر آمادگی کا اظہار

سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہونے کے بعد پاناما لیکس کے معاملے پر حکومت نے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔

وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ وزیراعظم لندن کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے راضی ہیں اور الزامات درست ثابت ہوئے تو وزیراعظم نتائج تسلیم کریں گے۔

سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ہم عدالتی کارروائی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور عدالت کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں جوڈیشل انکوائری پر اتفاق کیا گیا جس کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے اپنے خطاب میں کیے گئے اعلان کے مطابق سپریم کورٹ کو کمیشن کے قیام کے لیے خط ارسال کیا تاہم چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کمیشن بنانے سے متعلق حکومتی خط کو اعتراضات لگا کر واپس کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: 'سپریم کورٹ کیلئے تحقیقات کروانا مشکل ہوگا'

حکومت کو جوابی خط میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے لکھا تھا کہ جب تک فریقین مناسب ضوابط کار پر متفق نہیں ہوجاتے، کمیشن تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ حکومتی ضوابط کار بہت وسیع ہیں، اس کے تحت تحقیقات میں برسوں لگ جائیں گے اور جس خاندان، گروپ، کمپنیوں یا افراد کے خلاف تحقیقات کی جانی ہیں ان کے نام فراہم کرنا بھی ضروری ہیں۔

بعدازاں پاناما لیکس کی تحقیقات کی غرض سے حکومت اور اپوزیشن کی 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، حکومت اور اپوزیشن میں اس حوالے سے متعدد اجلاس ہوئے مگر فریقین اس کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر متفق نہ ہو سکے۔

تحریک انصاف کا مطالبہ تھا کہ حکومت پاناما لیکس کی آزادانہ تحقیقات کروانے کے لیے اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کو تسلیم کرے اور ان ہی الزامات کو جواز بناکر پی ٹی آئی 2 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دینے جارہی ہے۔

اپوزیشن کے ٹی او آرز

حزب اختلاف کی 9 جماعتوں کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے لیے 15 ٹی او آرز متفقہ طور پر منظور کیے گئے تھے۔

اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبے پر اتفاق کیا تھا تاہم قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اختلاف کے باعث وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ ٹی او آرز میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس کمیشن: اپوزیشن ٹی او آرز پر متفق

اپوزیشن کے ٹی او آرز میں کمیشن کی جانب سب سے پہلے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ اس کے لیے 3 ماہ کی مدت مقرر کرنے کا بھی مطالبہ شامل تھا۔

پاناما لیکس میں سامنے آنے والے دیگر افراد کے حوالے سے یہ شق شامل کی گئی تھی کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کے بعد دیگر لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اس کی تحقیقات ایک سال میں مکمل کر لینی چاہیے۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ خود کو تحقیقات کیلئے کمیشن کے سامنے پیش کریں۔

• نواز شریف 1985 سے 2016 تک جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے ذرائع آمدن کیا تھے، کن بینک اکاؤنٹس میں رقم رکھی گئی؟

• کیا اس آمدن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جانا تھا؟

• بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کیلئے رقم کن بینک اکاؤنٹس، کس تاریخ پر ادا کی گئی؟

• کمیشن کو آف شور اکاؤنٹس میں بھیجی گئی رقم کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

• کیا وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ دسمبر 2000 کے بعد اسٹیٹ گیسٹ تھے؟

• خصوصی کمیشن عالمی فرانزک آڈٹ کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی مقرر کرسکے گا۔

• ماہرین کی کمیٹی آف شور کمپنیوں کیلئے رقم کی مکمل چھان بین کرے گی۔

• نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

حکومتی ٹی او آرز

اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ٹی او آرز کو حکومت کی جانب سے مسترد کردیا گیا تھا، جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن کے ٹی او آرز کو تماشا قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ پر پاناما پیپرز میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

مذکورہ اعلان کے فوری بعد حکومت نے سیچوٹری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیا تھا جس میں پاکستان کمیشن آف انکوئری ایکٹ 1965 کے سیکشن 3 ون کے تحت کمیشن کیلئے 3 افراد کا نام دیا تھا۔

تاہم اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا تھا۔

حکومت کی جانب سے کمیشن کے لیے مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس مقررکیے گئے تھے۔

• کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیر ملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔

• کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہل خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔

• انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

• انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاونٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنے کا اختیار ہوگا۔ کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا۔

• انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجاز افسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا۔

• انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

• تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا۔

• کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

IsrarMuhammadKhanYousafzai Nov 04, 2016 02:01am
پاناما لیکس پر اب سپریم کورٹ نے کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ھے تمام فریق عدالت کا احترام کریں فیصلے سے پہلے اس پر تبصرے یا تجزیئے نہیں ھونے چاہئے کسی جج کے. ریمارکس کو اپنے حق اور دوسرے کے حلاف نہ مانا جائے کورٹ کو چاہئے کہ فیصلہ انے تک اس کیس کے حوالے سے میڈیا اور زاتی طور کسی کو بھی تبصرہ تنقید پر مکمل پابندی لگائی جائے پاکستان میں ایک غلط روایت پیدا ھوچکی ھے وہ یہ کہ جب بھی کوئی حاص کیس عدالت میں شروع ھوتا ھے تو ہر پیشی کے بعد عدالت کے احاطے کے اندر عدالت لگتی ھے اور پھر شام کو ہر ٹی وی چینل پر علیحدہ عدالتیں لگتی ھیں جو مقدمے پر اپنی طرف بحث و مباحثہ شروع کرتے ھیں ایسا کرنا عدالت کی توہین ھے پچھلے وقتوں میں عدالتی مقدمے پر فیصلے سے پہلے تبصرہ نہیں ھوتا تھا لیکن اجکل ایسا نہیں ھوتا