سقوطِ ڈھاکہ اور ہینری کسنجر کا جھوٹا سچ

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2016
ہنری کسنجر— اے ایف پی
ہنری کسنجر— اے ایف پی

امریکی رسالے اٹلانٹک کو دیے گئے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں بین الاقوامی شہرت یافتہ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کسنجر نے 16 دسمبر 1971 کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے، اس نے درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کو ششدر کر دیا ہے۔

تادم تحریر پاکستانی اعلیٰ حکام اس پر خاموش ہیں جو معنی خیز ہے۔ بقول ہینری کسنجر، نومبر کے مہینے ہی میں، یعنی پاکستان ٹوٹنے سے صرف ایک ماہ قبل، تیسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، فوجی سربراہ اور از خود صدر کہلانے والے جنرل یحییٰ خان نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کو قیامِ بنگلہ دیش کی نوید سناتے ہوئے اپنی رضامندی سے آگاہ کر دیا تھا۔

البتہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا مہینہ مارچ 1972 طے پایا تھا۔ یہ انٹرویو اٹلانٹک کے ایڈیٹر ان چیف جیفری گولڈ برگ کو ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب اس واقعے کو گزرے 45 برس ہونے کو ہیں۔

ہینری کسنجر 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بنائی جانے والی امریکی پالیسیوں کے گواہ ہیں، مگر وہ یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ اس کھیل میں روسی اور برطانوی ہرکارے کس طرح شامل تھے۔

1966 میں پاکستان نے شاہراہِ ریشم (سلک روڈ) بنانے کے لیے چین سے معاہدہ کیا تھا۔ چین متحدہ پاکستان کی موجودگی میں مشرقی و مغربی پاکستان کی دو اہم سمندری بندرگاہوں کے ذریعے بحیرہ ہند میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ارادے رکھتا تھا، اور روسی ان کے ارادوں کے امین تھے۔

پاک چین دوستی میں ایک اہم کردار میاں افتخار الدین کا بھی ہے جو 1951 میں ایک اعلیٰ سطحی وفد لے کر چین گئے تھے، جبکہ عوامی جمہوریہ چین کو مغربی یورپ اور امریکا تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ ایک جلاوطن حکومت کو ہی اقوام متحدہ میں ویٹو طاقت حاصل تھی جو تائیوان میں مقیم تھی۔

شاہراہِ قراقرم کے ذریعے متحدہ پاکستان تک چین کی آمد نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ اس سے نہ صرف چین کا خلیج بنگال اور خلیج فارس میں اثر و رسوخ بڑھنا تھا، بلکہ بحیرہ احمر (Red Sea) کی سیاستوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب روس اور چین کے درمیان سخت کشیدگی تھی۔ یوں بڑھتے ہوئے پاک چین تعلقات کے بعد عالمی سطح پر روس، برطانیہ اور امریکا چین کو روکنے والی پالیسی (China containment policy) کی طرف 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں باوجوہ یکجان ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا کہ ہماری اشرافیہ میں یہ بحث تیز کر دی گئی کہ اب ہمیں بنگالیوں سے جان چھڑا لینی چاہیے۔

اپنے اقتدار کا دس سالہ جشن مناتے ہوئے جنرل ایوب خان نے اخباروں کے ایڈیٹرز سے ملاقات میں اس باکمال تجویز کا تذکرہ کیا جو ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ یہی بات پختونوں کو ایک اور انداز سے بیچی گئی۔ ایک پختون کمیونسٹ کی کتاب ”فریب نا تمام“ ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے۔

جمعہ خان صوفی نے اس کتاب میں ولی خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب 1968 میں ایوب دورِ حکومت کے دوران گول میز کانفرنس ناکام ہوئی تو ایوب خان نے ولی خان کو بلا کر کہا کہ اگر تم پاکستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کے خواہاں ہو تو بنگالیوں سے جان چھڑوا لو۔ جمعہ خان صوفی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (امام علی نازش گروپ) میں تھے۔ بقول جمال نقوی یہ گروپ 1967 میں ہی بنگالیوں کی علیحدگی کی قرارداد منظور کر چکا تھا۔

ذرا اب ہینری کسنجر کے انکشاف کو جنرل ایوب کے دو بار بنگالیوں سے جان چھڑانے والی خواہش اور جنرل یحییٰ خان کی نومبر 1971 میں قیام بنگلہ دیش پر رضامندی سے جوڑ کر دیکھیں تو اس کہانی کے سرے جڑنے لگتے ہیں۔

2009 میں جب میں نے نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کے ایک پرانے رہنما کمال لوہانی کا انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ کیسے لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے دسمبر 1970 کے انتخابات سے قبل مجیب الرحمان کو مضبوط اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کو کمزور کیا تھا۔ مولانا بھاشانی اس کھیل میں درد دل رکھنے والے عوامی رہنما تھے جنہیں مشرقی و مغربی پاکستان میں اتحاد کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

وہ یہ سب دیکھ کر اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ مجبوراً انہیں انتخابات کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔ اگرتلہ کا مقدمہ بھی مجیب الرحمان کو لیڈر بنانے کے لیے کارگر رہا۔ چنگاری کو ہوا دے کر زیرک صاحبزادہ یعقوب استعفیٰ دے کر کھسک آئے۔ اشرافیہ کے ایک حلقے نے خود بنگالیوں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا مگر اس کا الزام سیاستدانوں کے سر باندھنا "قومی مفاد" کی خاطر ضروری تھا۔

جنرل یحییٰ کو یہ بتلایا گیا کہ اگر دو جماعتیں مشرقی و مغربی پاکستان میں انتخاب جیتیں گی تو آپ ان کو ایک دوسرے سے لڑوا کر مستقبل کے صدر بن سکیں گے۔ مگر جو بات کسنجر نہیں کر سکے، وہ تھا بھارت کا پاکستان پر حملہ اور مجیب باہنی کا قیام۔

جب پاکستان کا صدر و فوجی سربراہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر راضی تھا تو پھر بھارت کو پاکستان کے مشرقی بازو پر حملہ آور کیوں ہونے دیا گیا؟

اس بات کو جاننے سے ہی آپ کو کسنجر کا سچ اور جھوٹ سمجھ آ جائے گا۔ اس بارے میں مشہور بھارتی بنگالی کیمونسٹ موہیت سین اور پاکستانی لکھاری طارق علی نے اپنی اپنی کتابوں میں روشنی ڈالی ہے۔

بھارت کو بجا طور پر یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کھیل کے دوران متحدہ بنگال کی تحریک مضبوط نہ ہو جائے۔ اس کی نظر برابر اس پر تھی۔ بھارتی افواج دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش بنانے نہیں بلکہ متحدہ بنگال کی تحریک کو کچلنے کے لیے مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تھیں۔

پاکستان پر حملے سے چند ماہ پہلے راتوں رات مجیب باہنی کھڑی کی گئی جس کا مقصد صرف اور صرف متحدہ بنگال کے حامیوں کو مارنا تھا، جو سب کے سب چین نواز تھے۔ اگر چین نواز متحدہ بنگال ہی بنانا تھا تو پھر پاکستان توڑنے کی مہم کیوں شروع کرنی تھی۔

کسنجر اپنے جھوٹے سچ سے زیادہ گمراہیاں نہیں پھیلا سکتے کیوں کہ اب ہر طرح کا مواد دستیاب ہے۔ اپنے انٹرویو میں ہینری کسنجر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا کو سوویت دباؤ، بھارتی مقاصد، پاکستانی سلامتی اور چین کے شکوک و شبہات کے درمیان بہت ساری چیزوں کو مدِ نظر رکھنا تھا، اور اسی حساب سے 'ایڈجسٹمنٹ' کی گئیں۔

مشرقی پاکستان میں بھارتی ایڈوینچر پر مزید بات کیے بغیر ہینری کسنجر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ جس بات کی یحییٰ نے یقین دہانی کروائی تھی، وہ اور دیگر پالیسی مقاصد پورے ہوئے لہٰذا جو کچھ بھی ہوا اس پر معافی نہیں مانگی جا سکتی۔

مگر چین کو روکنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں ہمارا پورا خطہ برباد ہوا۔ ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان اور برما، ہر جگہ بربادیوں کے میلے سجائے گئے اور انتہا پسندیاں قومیتی و مذہبی لبادوں میں مضبوط ہوئیں جس کا پھل آج پورے خطے میں جگہ جگہ دستیاب ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Nov 28, 2016 07:19pm
السلام علیکم: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اسٹبلشمنٹ پڑھے لکھے بنگالیوں ، علم و فن کے ماہر پاکستانیوں کو بوجھ تصور کرتی تھی اور ان کی موجودگی میں اپنا کھیل نہیں کھیل سکتی تھی۔ مشرقی پاکستان گیا اور اب اس اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں بچا، قومی مفاد کے نام پر وطن عزیز سمیت پورے خطے میں کیا کیا نہیں کیا جارہا، کبھی چین کا راستہ روکنے کے نام پر کبھی روس کا راستہ روکنے کے نام پر، کبھی دہشت گردی کو شکست دینے کے نام پر پورا ملک ان کے حوالے کردیا جاتا ہے، اس ملک کو مل کر کھانا ہے ،حکومت کرنی ہے، علاج باہر کرنا ہے ، بزنس باہر کرنا ہے، پارٹیاں اور شاپنگ باہر کرنا ہے، قرضوں پر قرضے لینے ہیں اور آخر اس دوبتی کشتی سے چھلانگ لگا کر بھاگ جانا ہے، نہ تو ملک کی بہتری اور نہ عوام کی بہتری کے لیے کچھ کرنا ہے، تعلیم اول تو دینی نہیں اور اگر دینی ہے تو صرف کلرک پیدا کرنے والی، کسی نے کیا خوب کہا ہے قومی مفاد کی آڑ لے کر ذاتی مقاصد پورے کیے جانے لگیں تو وہ محض بدی پھیلانے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ خیرخواہ
اظھر زیدی Nov 29, 2016 02:07am
تاریخ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ تمام راز اپنے سینے میں دفن رکھتی ہے اور وقت بے وقت انہیں بیان کرکے حمام کا پردہ سرکاکر عوام کو اعلی سطح پر رچائے جانے والے ڈراموں سے آشنا کرتی رہتی ہے ۔عامر ریاض صاحب کے شکر گزار ہیں جنہوں نے انتہائی خوبصورت انداز میں تاریخ کے جھروکے سےانتہائی تلخ حقائق قوم کے سامنے پیش کیے۔ شکریہ عامر ریاض