گزشتہ ماہ اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پی ٹی وی کے چیئرمین جناب عطاءالحق قاسمی کی صاحب کی "تصویری سوانح حیات" کی رونمائی ہوئی۔ صدر مملکت ممنون حسین نے اس کتاب کی رونمائی کی۔ صاحبِ سوانح حیات نے کہا کہ انہوں نے صدر مملکت کو اس لیے اپنی کتاب کی رونمائی کے لیے نہیں مدعو کیا کہ وہ صدرمملکت ہیں بلکہ اس لیے زحمت دی کہ صدر مملکت مطالعے کے بڑے شوقین ہیں۔

معلوم نہیں کہ اس تقریب رونمائی کے اخراجات کس نے ادا کیے؟ لیکن ہوٹل میں آویزاں تقاریب کی شیٹ پر پی ٹی وی کا پروگرام درج تھا۔

اس کتاب میں قاسمی صاحب کی تحاریر کے بجائے بچپن سے لے کر ان کے بڑھاپے تک کی ہزارہا تصاویر میں سے چھانٹ کر چند درجن تصاویر شامل کی گئی ہیں، جن میں سے زیادہ تر تصاویر میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔

تصویری سوانح حیات کے ’مصنف‘ کا قاسمی صاحب پر اتنا اعتقاد تھا کہ انہوں نے اس پر 22 لاکھ روپے خرچ کر دیے۔ یہ بات بھی تقریب میں میزبانوں نے بتادی۔ لیکن آج ہمارا موضوع قاسمی صاحب کی وہ تصویری سوانح حیات نہیں بلکہ ان کا کالم "جھولے لعل" ہے جو اصل میں ایک چرسی کے ان مطالبات پر مشتمل ہے جو وہ قاسمی صاحب سے کرتا ہے۔

قلمکار بادشاہ ہوتا ہے، اسے بات بنانے کا ڈھنگ آتا ہے اور قاسمی صاحب کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ ان کی تحاریر کا مزاح اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب وہ خود انہیں پڑھ کر سنائیں۔ لیکن ہم جس کالم کی بات کر رہے ہیں وہ آٹھویں جماعت کے طلبا اور طالبات کو پڑھایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اکثر اوقات اپنے مضامین میں اس بات پر کڑھتے رہتے ہیں کہ پاکستان کی درسی کتابوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس کا تاریخ سے اور جو فزکس پڑھائی جاتی ہے اس کا فزکس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جاتی ہے اس کا تعلیم سے ہی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

آٹھویں جماعت کی اردو کی کتاب وفاقی ٹیکسٹ بک بورڈ اسلام آباد کی جانب سے تیار کی گئی ہے۔ اس کے صفحہ نمبر 137 پر عطاء الحق قاسمی صاحب کا ایک کالم چھاپا گیا ہے جس کا عنوان ہے "جھولے لعل"۔

اس کالم میں قاسمی صاحب نے ایک چرسی کے ساتھ اپنی ملاقات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ میرا اعتراض قاسمی صاحب کی چرسی سے ملاقات یا ان کے کالم پر نہیں بلکہ اعتراض تو اس بات پر ہے کہ کیا آٹھویں جماعت کے طلبہ کو یہ کالم پڑھانا چاہیے؟

اس کالم میں چرسی قاسمی صاحب سے کبھی مخاطب ہوتا ہے تو کبھی تڑی دے کر بات کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ کیوں ان کے مسائل کا ذکر اپنے کالم نہیں کرتے۔

بچوں کو بتایا گیا ہے کہ چرسی قاسمی صاحب کو بتاتا ہے کہ انہیں پولیس والے پکڑ کر لے جاتے ہیں اور تھانے لے جا کر ان کی چھترول کرتے ہیں، کبھی نیا چھتر لے لیں تو چرسیوں پر نئے چھتر کی "رننگ" بھی کی جاتی ہے۔ چرسی سے پولیس پوچھتی ہے کہ تم چرس کہاں سے خریدتے ہو؟ اور جب ہم ڈر کے مارے انہیں بتائیں کہ فلاں جگہ سے خریدتے ہیں تو وہ اور بھی مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم یہ چرس ہم سے کیوں نہیں خریدتے۔

اس کالم میں چرسی اپنے امن پسند ہونے کی دلیل دیتے ہوئے بتاتا ہے کہ آج تک ایک بھی چرسی دہشتگردی میں نہیں پکڑا گیا۔ ہم مزاروں کے گوشوں میں بیٹھ کر امن پسندی کے جذبات کو فروغ دینے کے لیے چرس پیتے ہیں۔ اس کے بعد چرس کا ریٹ بھی بتایا جاتا ہے، 25 گرام 8 سو روپے کا، چرس میں ملاوٹ کی بھی شکایت کی جاتی ہے۔ صاحب تحریر حکومت سے چرسیوں کے مطالبات فوری طور پر ماننے کی درخواست بھی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کا کالم آٹھویں جماعت کے بچوں کو پڑھانا چاہیے؟

ایک اخبار میں چھپنے والی تحریر کو درسی کتاب میں شامل کرنے کا ان بچوں پر کیا اثر ہوگا جنہیں شاید یہ بھی پتہ نہیں کہ قاسمی صاحب کیا ہیں اور ان کی تحاریر کن لوگوں کے لیے ہیں۔

جن ماہرین تعلیم نے یہ کالم اس کتاب میں شامل کیا ہے انہیں اس طرح کا مذاق ان بچوں سے نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس کالم میں اگر چرس کو مثبت نہیں تو منفی انداز میں بھی پیش نہیں کیا گیا، پڑھنے والے بچوں کو نہیں معلوم کہ انہیں جو بات پڑھائی جا رہی ہے اس کا مقصد کیا ہے۔ ہمارے اداروں پر طنز کا کیا مقصد ہے، کیا درسی کتابوں میں ہم اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ ہمارے پولیس والے چرس فروخت کرتے ہیں، اور ان سے چرس خرید نہ کرنے والے چرسیوں پر تشدد بھی کیا جاتا ہے؟

ایک طرف پولیس کی ساکھ بہتر کرنے کے لیے مہم چلائی جاتی ہے تو دوسری طرف ہماری نسل کو وہ مزاح پڑھایا جاتا ہے جس کا ان کی عمر سے تعلق بھی نہیں بنتا۔

میں ماہر تعلیم تو نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ جب ہمارے بچے اس طرح کی تحاریر پڑھیں گے تو انہیں فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن ہمارے اداروں کی ساکھ ان کے سامنے کبھی بہتر نہیں ہو پائے گی۔

اور اداروں کی پہلے سے خراب ساکھ ایک طرف، اگر ہمارے بچے چرس کو امن پسندی کی علامت سمجھ بیٹھے تو ذمہ دار کون ہوگا؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

Hanif Mar 09, 2017 12:24pm
agreed sir.
ibrahim kumbhar Mar 09, 2017 01:46pm
قاسمی صاحب ھر دور میں اور نواز دور میں تو نوازے ہی جاتے رہے ہیں یہ ان کا حق بھی ہے،لیکن یہاں آپ نے اپنی طرف سے چھترول کرکے خوب حق ادا کیا ہے۔۔
عائشہ Mar 09, 2017 02:46pm
افسوس ناک عمل ہے ۔ آپ نے نہایت ہی اہم مسئلہ کی نشان دہی کی ہیں۔ حکومت اور خاص کر محکمہ تعلیم کو چاہے کہ وہ قومی نصاب میں سفارشی چیزوں کو شامل نہ کریں۔ یہ ایک شرم ناک حرکت ہے ۔ نصاب سے کردار سازی کا عمل ہوتا ہے ۔
Ali Keerio Mar 09, 2017 03:59pm
Dr Pervaiz Hood bhae"s words are golden that History, Physics and Education which we teach our children has nothing to do with History, Physics and Education.
رڪ سنڌي Mar 09, 2017 10:43pm
اسان وٽ جيڪي تدريسي ڪتاب بارن کي پڙهايا وڃن ٿا، اهي مدي خارج آهن. خاص ڪري سائنسي مضمون تي اڄ کان 50 سال اڳ وارين ٿيوريز تي مشتمل آهي. جديد سائنس ۽ تحقيق کان نئين نسل کي اڻ ڄاڻ رکيو ٿو وڃي. هن نسل جو خدا خير ڪري.
رمضان رفیق Mar 10, 2017 03:46am
کیا خوب لکھا ہے آپ نے، قاسمی صاحب کا چرسی ہے درسی کتابوں میں تو جگہ پائے گا ہی، ہو سکتا ہے اس بات کا قاسمی صاحب کو بھی پتہ نہ ہو، اور کسی چرسی نے پراڈکٹ کی مشہوری کے لئے یہ کالم چھاپ دیا ہو؟
ARA Mar 10, 2017 05:58am
Agreed! (I am an academic myself)
Hanzala Malik Mar 10, 2017 11:00am
Bht khoob.....
I.M. KHAN Mar 11, 2017 11:17am
Having realised that he is inclined towards a political leader, I gave up to read his columns. Anyway, you pointed out a very important issue but sir, any thing can happen in this country.
Ashian Ali Mar 12, 2017 03:16pm
سوال یہ بھی ہے اگر قاسمی صاحب ن لیگ کے خوشامدی نہ ہوتے تو کیا آپ کو ایک دانشور تسلیم کیا جا سکتا تھا ؟