چیمپیئنز ٹرافی: نئے کپتان سرفراز کا امتحان

اپ ڈیٹ 31 مئ 2017
سرفراز احمد کو بہترین کارکردگی کیلئے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے سینئر و جونیئر کھلاڑیوں کی صلاحیت کو بھرپور انداز میں بروئے کار لانا ہو گا— فوٹو: اے ایف پی
سرفراز احمد کو بہترین کارکردگی کیلئے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے سینئر و جونیئر کھلاڑیوں کی صلاحیت کو بھرپور انداز میں بروئے کار لانا ہو گا— فوٹو: اے ایف پی

چیمپیئنز ٹرافی کی تیاریوں کے سلسلے میں پہلے وارم اپ میچ میں فہیم اشرف کی شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش کے خلاف شکست کی رسوائی سے بچنے میں تو کامیاب رہی لیکن قومی ٹیم خصوصاً نئے کپتان سرفراز احمد کی قائدانہ صلاحیتوں کا اصل امتحان چار جنوری کو روایتی حریف ہندوستان کے خلاف بھرپور دباؤ کے حامل میچ سے شروع ہو گا۔

ون ڈے رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر موجود پاکستان کیلئے یہ ایونٹ جہاں ورلڈ کپ 2019 تک براہ راست رسائی کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہیں ساتھ ساتھ یہ کئی کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرے گا۔

سرفراز احمد بحیثیت کپتان ویسٹ انڈیز جیسی کمزور ٹیم کے خلاف پہلی انٹرنیشنل سیریز جیتنے میں تو کامیاب رہے لیکن طویل عرصے سے سلو بیٹنگ اور 90 کی دہائی کی حکمت عملی کے تحت کرکٹ کھیلنے کیلئے مشہور موجودہ پاکستانی ٹیم کے قائد کی اصل آزمائش یہ ٹورنامنٹ ہو گا جہاں اس کا سامنا عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ اور عالمی نمبر تین ہندوستان سے ہو گا۔

2015 ورلڈ کپ کے اختتام کے بعد مستقل مشکلات سے دوچار پاکستانی ٹیم کو بیٹنگ کی دقیانوسی سوچ بدلنے کا چیلنج درپیش ہے جس کے سبب گرین شرٹس نے کئی ون ڈے اور ٹی20 مقابلے حریف کی جھولی میں تحفتاً ڈال دیے۔

ورلڈ کپ کے بعد قیادت کی باگ ڈور اظہر علی کے ناتواں کاندھوں پر ڈالی گئی اور قومی ٹیم کو تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں 3-0 سے کلین سوئپ کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ہاتھوں سیریز میں 4-1 سے شکستوں کے بعد ارباب اختیار کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے اظہر سے قیادت لیتے ہوئے یہ ذمے داری سرفراز احمد کو سونپ دی۔

مصباح اور اظہر علی کی نسبت قدرے جارحانہ انداز میں قیادت کیلئے مشہور سرفراز نے ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں بہتر انداز میں قیادت کی اور قومی ٹیم کی سوچ میں واضح تبدیلی کے ساتھ جیت کی لگن اور ایک توانائی بھی نظر آئی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ بڑی ٹیموں کے خلاف بھی ٹیم کو اسی انداز میں لڑا سکیں گے؟۔

سابق کرکٹرز اور ماہرین کا ماننا ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی میں توقعات سے بڑھ کر کچھ کرنے کیلئے پاکستانی ٹیم کو خصوصاً اپنی بیٹنگ کا انداز بدلتے ہوئے جارحانہ کھیل پیش کرنا ہو گا اور سرفراز کا انداز قیادت بھی بہت اہمیت کا حامل ہو گا۔

قومی ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ کا ماننا ہے کہ اس ٹیم میں دنیا کی صف اول کی ٹیموں کو محدود اوورز کی کرکٹ میں تسلسل کے ساتھ ہرانے کی صلاحیت اور پاور ہٹنگ کی کمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک کپتان اتنا ہی اچھا ہو سکتا ہے جتنی اچھی اس کی ٹیم ہو اور اس ٹیم میں پاور ہٹنگ کی صلاحیت کی واضح کمی نظر آتی ہے۔

رمیز نے کہا کہ میچ جیتنے کیلئے نئی گیند سے وکٹیں لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ سرفراز کو اپنے جذبات بھی قابو میں رکھنے ہوں گے۔ ٹیم میں ایک سازگار ماحول بنانے کیلئے ان کے پاس ڈسپلن کی بنیاد پر قائم ایک لچکدار منصوبہ بھی ہونا چاہیے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ اس میں مناسب تبدیلی کے ساتھ عمل کر سکیں۔

پاکستان نے مئی 2015 میں زمبابوے کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ ویسٹ انڈیز کی انگلینڈ ہاتھوں شکست کی بدولت چیمپیئنز ٹرافی تک رسائی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

تاہم ویسٹ انڈیز میں اکثر مواقعوں میں فیلڈرز کی غلطیوں پر انہیں ڈانٹ پٹ کرتے ہوئے نظر آنے والے کپتان سرفراز کا ماننا ہے کہ پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں آٹھویں نمبر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہم آٹھویں نمبر پر موجود ہیں لیکن ہم اپنے حریفوں کے خلاف بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے انہیں مشکل وقت دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

سرفراز نے برمنگھم میں ایونٹ کی تیاریوں کیلئے لگائے گئے کیمپ میں خامیوں پر قابو پانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ایونٹ میں ہماری فائٹ تمام ٹیموں کی نگاہوں کا محور بن جائے گی۔

رمیز راجہ کی طرح کی ٹیم کے کوچ مکی آرتھر بھی اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ پاکستانی ٹیم نوے کی دہائی کی ون ڈے کرکٹ کھیل رہی ہے اور ٹیم کو اس شعبے میں کافی بہتری درکار ہے۔

پاکستانی بیٹنگ کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے رمیز راجہ نے پاور ہٹنگ کی کمی کے ساتھ ساتھ پاکستانی بلے بازوں کی جانب سے کھیلی جانے والی بڑی تعداد میں ڈاٹ بالز کو بھی لمحہ فکریہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاٹ گیندیں کھیلنے سے رن ریٹ گر جاتا ہے اور میں سرفراز کو مشورہ دوں گا کہ بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کرتے ہوئے خود چوتھے یا پانچویں نمبر پر بیٹنگ کریں جبکہ بڑے اسکور کیلئے شعیب ملک اور عماد وسیم کی جانب سے جارحانہ بیٹنگ بھی درکار ہو گی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال شرجیل خان کی شکل میں پاکستان کو ایک جارح مزاج اوپنر ملا تھا جس نے بیرون ملک بھی تیزی سے اسکور کتتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لیکن پاکستان سپر لیگ کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے سبب ان کے خلاف کارروائی جاری ہے۔

پاکستان نے نچلے نمبروں پر بیٹنگ کیلئے ایک مرتبہ ’ینگ اینڈ ٹیلنٹڈ‘ عمر اکمل کو ٹیم میں شامل کیا لیکن خراب ڈسپلن کیلئے شہرت رکھنے والے بلے باز ناقص فٹنس کے سبب انگلینڈ پہنچتے ہی واپس روانہ کر دیے گئے۔

بیٹنگ کی نسبت پاکستان کی باؤلنگ نسبتاً بہتر نظر آتی ہے جس میں شاداب خان کی شکل میں نوجوان اسپنر اور گیند کو سوئنگ کرنے پر مہارت رکھنے والے محمد عامر اور حسن علی جیسے باؤلرز بھی موجود ہیں۔

پاکستانی ٹیم آج تک چیمپیئنز ترافی نہیں جیت سکی اور 2004 اور 2009 میں سیمی فائنل میں پہنچنے کے بعد پاکستان کی مہم اختتام پذیر ہوئی۔ چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم کا ہندوستان کے خلاف دو فتوحات کے ساتھ بہتر ریکارڈ ہے اور یہ واحد آئی سی سی ایونٹ ہے جہاں پاکستان روایتی حریف کو زیر کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔

سرفراز احمد نے ہندوستان کے خلاف میچ کو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا اور کہا کہ اس میچ میں فتح سے بقیہ ٹورنامنٹ میں بہتر کارکردگی کی راہ ہموار ہو گی۔

چیمپیئنز ٹرافی میں ہندوستان کے خلاف میچ کے بعد پاکستانی ٹیم سات جون کو جنوبی افریقہ اور پھر 11 جون کو کارڈف میں سری لنکا کے مدمقابل ہو گی جہاں گروپ کی دو بہترین ٹیمیں سیمی فائنل کھیلنے کی حقدار قرار پائیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں