اسحٰق ڈار 310 ارب روپے کے ’اضافی‘ بجٹ کی منظوری کیلئے کوشاں
اسلام آباد: اخراجات پر کنٹرول کے حکومتی دعوؤں کے باجود وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پارلیمنٹ سے اضافی اخراجات کے لیے 310 ارب 50 کروڑ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ منظور کرانے کی کوشش کریں گے۔
پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی بجٹ دستاویزات کے مطابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے سپلیمنٹری گرانٹ کے ذریعے 310 ارب 50 کروڑ کے حصول کی کوشش کی ہے جن میں سے کچھ تکنیکی نوعیت کے ہیں تاہم اس گرانٹ میں 121 ارب روپے کے اضافی اخراجات بجٹ پر اضافی بوجھ ہوگا۔
پارلیمنٹ کو ان خراجات کو منظور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ رقوم پہلے سے ہی خرچ ہو چکی ہیں۔
قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی بجٹ دستاویزات پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ان اضافی اخراجات کو وزیراعظم کے اختیاری اخراجات، ان کی تشہیر، نئی لگژری گاڑیوں کی خریداری، ججز کو دی جانے والی مراعات کی تزئین و آرائش، خفیہ ایجنسیوں کے نامعلوم اخراجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: 47 کھرب 50 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش
دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے دی جانے والی 310 ارب 50 کروڑ کی سپلیمنٹری گرانٹ گذشتہ برس 261 ارب روپے کی گرانٹ کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔
دستاویزات کے مطابق 185 ارب روپے کی گرانٹ منظور شدہ اخراجات کے لیے ہیں کیونکہ فنڈز کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی سے بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ یہ ریگولر سپلیمنٹری گرانٹ اُن اخراجات کے لیے فراہم کی گئی ہے، جو اُس وقت سامنے نہیں آئے تھے جب ان گرانٹ کے مطالبات کو حتمی شکل دی جارہی تھی اور یہ اضافی گرانٹ بجٹ پر اثر انداز ہوگی۔
حیران کن طور پر وزارت خزانہ محض 11 ماہ قبل ہونے والے ان اخراجات کے بارے میں نہیں جان سکی۔
چونکہ ان گرانٹس کی اخراجات کے طور پر وضاحت کی گئی ہے لہٰذا پارلیمنٹ اسے مسترد نہیں کر سکتی کیونکہ یہ رقم پہلے ہی خرچ ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی تاریخ کے 'سب سے بڑے' ترقیاتی بجٹ کی منظوری
مثال کے طور پر سبسڈی میں کمی کے دعووں کے باوجود حکومت سبسڈی کے لیے مختص رقم کو پہلے ہی 12 ارب روپے بڑھا چکی ہے جسے بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
دوسری جانب غیر منظور شدہ بیرونی قرضوں کی مد میں 63 ارب روپے خرچ کیے گئے جبکہ 41 ارب روپے ’دیگر‘ اخراجات پر خرچ ہوئے۔
سپلیمنٹری گرانٹ کے مزید 61 ارب روپے پر نظر ڈالی جائے تو یہ رقم کفایت شعار پالیسی ہونے کے باوجود اسرافی اخراجات پر خرچ ہوئی۔
مثال کے طور پر خصوصی حفاظتی سامان کی خریداری پر 1 ارب 60 کروڑ خرچ ہوئے جن میں 14 کروڑ روپے صدر پاکستان کی سیکیورٹی پر خرچ ہوئے جبکہ 15 کروڑ 40 لاکھ روپے وزیراعظم کے اختیاری اخراجات اور دوران ملازمت انتقال کرجانے والے ملازمین کے خاندان کی مالی معاونت اور اعزازی ادائیگیوں پر خرچ ہوئے۔
عالمی ثالثی عدالت میں کیس کی پیروی کے لیے وکلاء پر 41 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: اگلے تین سال تک مالیاتی خسارے کی حد میں نرمی
35 اعلیٰ سیکیورٹی گاڑیوں کی خریداری کی مد میں 45 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ ہوئے، اسلام آباد میں منعقد ہونے والی انیسویں سارک کانفرنس کے اخراجات پر 9 کروڑ 70 لاکھ روپے جبکہ افغانستان میں تشہیری مہم، عالمی ادارہ صحت اور انسانی حقوق کونسل پر 11 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
وزیر اعظم صحت اسکیم کی تشہیر پر قومی خزانے میں سے 1 ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ مختلف کھیلوں کی فیڈریشن میں 52 کروڑ 50 لاکھ روپے تقسیم ہوئے۔
ججوں کی رہائش گاہوں، ریسٹ ہاؤس، آفس اور خصوصی عدالت کی عمارت کی تزئین و آرائش پر اضافی 19 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
تقریباً 3 ارب روپے کیوبا، چین اور سری لنکا کو چاول تحفتاً دینے کے لیے پاکستان ٹریڈنگ کارپوریشن کو دیئے گئے جبکہ سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات میں شرکت کرنے کے لیے شہباز لطیف مرزا پر 11 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
غیر منظور شدہ 12 ارب 30 کروڑ روپے میں سے 9 ارب روپے جے ایف 17 تھنڈر کی ادائیگیوں پر، گندم اور آٹے کی درآمدات پر سبسڈی کے لیے 1 ارب 60 کروڑ خرچ ہوئے جبکہ 1 ارب 60 کروڑ روپے چینی کی درآمدات کے لیے شوگر ملز مالکان کو دیئے گئے۔
ایک اور خبر پڑھیں: سی پیک قرضوں کی ادائیگی 5ارب ڈالرزسالانہ ہوجائے گی: مشیر وزیراعظم
حکومت نے ایشیائی ترقیاتی و سرمایہ کاری بینک میں شراکت کے لیے 4 ارب 30 کروڑ روپے، آرگنائزیشن برائے اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) کو 1 ارب 13 کروڑ روپے جبکہ عالمی ادارہ صحت کو 5 ارب 30 کروڑ روپے ادا کیے۔
تقریباً 31 ارب روپے کی رقم مالی سال کے دوران مختص کی گئی، جن میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کی حفاظت کے لیے 10 ارب روپے، اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے فوج کو 11 ارب روپے جبکہ اندرونی سیکیورٹی ڈیوٹی الاؤنس کی مد میں 5 ارب روپے رکھے گئے۔
افغانستان اور ایران سے ملحقہ مغربی سرحد پر مسلح افواج کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے 19 ارب روپے خرچ کیے گئے جبکہ سندھ اور پنجاب میں پاکستان رینجرز کی صلاحیت بڑھانے کے لیے 2 ارب 70 کروڑ روپے خرچ گئے۔
پاکستان میں مردم شماری کے لیے 18 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے جبکہ وزیراعظم پیکج کے تحت کھاد کی برآمدات پر 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔
مزید پڑھیں: دفاع کے بجٹ میں 7 فیصد اضافہ
عالمی ثالثی عدالت میں بھارت کے خلاف کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے کیس کی پیروی کے لیے الین اینڈ اوروے نامی فرم کو بالترتیب 37 کروڑ 80 لاکھ اور 40 کروڑ 8 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔
ارکان پارلیمنٹ کو وزیر اعظم ترقیاتی اسکیم کے تحت 22 ارب 50 کروڑ روپے ادا کیے گئے جبکہ 1 ارب روپے وزیراعظم تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے خرچ کیے گئے جن میں اسلام آباد میں موجود تقریباًٍ 200 تعلیمی اداروں کی تزئین و آرائش شامل ہے۔
وزیر اعظم یوتھ اسکل ڈیولپمنٹ اسکیم پر 2 ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوئے، وزیراعظم بلا سود قرضوں اور یوتھ بزنس قرضوں پر 43 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ وزیراعظم یوتھ ٹریننگ اور وزیراعظم خصوصی اسکیم برائے مظفر گڑھ پر 3 ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
وزیرستان میں موجود تصدیق شدہ بے گھر افراد کو 6 ارب 60 کروڑ روپے کی مالی امداد دی گئی۔
نیشنل کمیشن برائے انسانی ترقی کو 62 کروڑ روپے بطور الاؤنس ادا کیے گئے جبکہ 2 ارب 10 کروڑ روپے ہنگامی صورتحال پر استعمال ہونے والے تین ہیلی کاپٹروں کے انجن پر خرچ ہوئے۔
یہ خبر 29 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی