اسلام آباد: حکومت پاکستان نے کثیر تعداد میں مشتبہ دہشت گردوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر تے ہوئے 30 لاکھ ڈالر تک کی رقم ضبط کرلی۔

ان اقدامات کے باوجود رواں ماہ جون میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کی جانچ پڑتال کرنے والے بین الاقوامی نگراں ادارے کے ایک اہم اجلاس کے دوران پاکستان کو جانچ پڑتال کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ایک تجزیہ نگار کے مطابق پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی حمایت نے ان کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت کو روکنا مشکل بنادیا ہے۔

فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے محکمہ مواصلات کی اہلکار الیگزینڈرا ویجمینگا ڈینیئل کے مطابق رواں ماہ اسپین میں ادارہ شدید خطرے اور غیر تعاون دائرہ اختیار کی تشخیص کو اپڈیٹ کرے گا، تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

مزید پڑھیں: 'نیکٹا میں مسائل کی وجہ حکومتی عدم توجہ'

35 ممالک پر مشتمل بین الاحکومتی ادارہ منی لانڈرنگ سے لڑنے کے لیے 1989 میں وجود میں آیا جبکہ امریکا میں ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملے بعد اس دہشت گردی کی مالی امداد کو روکنے کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔

اگر کسی ملک کا بینکنگ کا نظام منی لانڈرنگ کے لیے ایک محفوظ مقام ہو تو ایسا ملک ایف اے ٹی اے کی ’بلیک لسٹ‘ میں شامل کر دیا جاتا ہے جس کے بعد اس ملک کو قرضہ لینے کی صلاحیت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دو سال قبل اسی طرح کے ایک اجلاس کے بعد پاکستان کو اس جانچ پڑتال سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا اور پاکستان کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف حوصلہ افزاء اقدامات کو سراہا گیا تھا۔

تاہم کالعدم تنظیموں لشکر طیبہ اور جیش محمد کے دوسرے ناموں سے دوبارہ فعال ہونے اور ان کے آزادانہ طور پر فنڈ جمع کرنے کی مہمات چلانے پر سوالات اٹھائے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’نیکٹا کے معاملات بہتر ہو رہے ہیں‘

اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا ہے کہ حکومت کو مشتبہ دہشت گردوں اور تنظیموں کو مکمل طور پر کام کرنے سے روکنے کے لیے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی (نیکٹا) کے ڈائریکٹر احسان غنی نے بتایا کہ نیکٹا اینٹی ٹیرر فنانسگ پالیسیاں وضح کرنے، نامور دہشت گرد گروپوں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کرنے اور دوسرے نام سے کام کرنے والے ان گروپوں کی نشاندہی کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔

جب احسان غنی نے 18 ماہ قبل نیکٹا کی ذمہ داری سنبھالی تو ڈرائیور سمیت کل 25 ملازمین نیکٹا کا حصہ تھے جبکہ حکوت نے وعدہ کیا تھا کہ ادارے میں ملازمین کی تعداد کو 800 تک بڑھا دیا جائے گا جس کی مدد سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی مدد کو روکا جائے گا۔

ڈائریکٹر احسان غنی نے اس سست روی کا ذمہ دار حکومتی عزم کے فقدان اور بیورو کریسی میں جاری قانونی جنگوں کو قرار دیا۔

نیکٹا کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد احسان غنی نے اپنے اسٹاف کی تعداد 100 تک بڑھایا، 1 ارب 80 کروڑ روپے کا بجٹ حاصل کیا اور دہشت گردی میں ملوث افراد کی فہرست جمع کرنے اپ ڈیٹ کرنا شروع کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: اداریہ: کالعدم تنظیمیں سوشل میڈیا پر کب تک آزاد رہیں گی؟

انہوں نے نئی پالیسی واضح کی جس کے تحت سخت قانون بھی نافذ کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ فہرست اب پرانی ہوچکی ہے کیونکہ اس فہرست میں سے کئی افراد یا تو جیل میں ہیں یا پھر مارے جاچکے ہیں جبکہ ایسے مشتبہ افراد کی شناخت کرنا جن کا تعلق دہشت گردوں سے ہے، چاروں صوبوں کا کام ہے۔

گذشتہ برس کے واقع کو یاد دلاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گذشتہ برس رمضان المبار ک کے مہینے میں فطرہ اور خیرات بہت بڑی تعداد میں جمع کی جارہی تھی جس کے بارے میں خبر موصول ہوئی کہ کالعدم تنظیمیں آزادانہ طور پر رقم جمع کر رہے ہیں۔

خبر ملتے ہیں انہوں نے تمام صوبوں کو نوٹس ارسال کرتے ہوئے ان تنظیموں کو فطرہ جمع کرنے سے روکنے کی تنبیہ کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال بھی نیکٹا قابل قبول خیراتی اداروں کی ایک فہرست جاری کرے گی جنہیں صاحب استطاعت افراد زکوٰۃ اور فطرہ دے سکتے ہیں کیونکہ یہ تنظیمیں کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح انسٹیٹیوٹ حسن اکبر نے کہا کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ کو روکنے اور اس میں ملوث کاروبار کو روکنے کے حوالے سے اقدامات کیے ہیں جبکہ ایسی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائیاں کی گئی ہیں جو نام تبدیل کر کے ملک میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ خبر 4 جون کو ڈان اخبار میں شائی ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں