آخرکار وزیراعظم میاں نواز شریف بھی پاناما کیس کی مزید تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے بلاوے پر پیش ہو ہی گئے۔ یہ تحقیقاتی کمیٹی وزیر اعظم کے لندن فلیٹوں کی منی ٹریل کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔ وزیراعظم سے پہلے ان کے دو صاحبزادے بھی اسی جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم سے تحقیقاتی کمیٹی نے کیا سوالات کیے؟ ان سے کس طرح کا رویہ اختیار کیا گیا؟ یہ سب جاننے کے لیے عوام بے تاب ہیں، لیکن عوام کی یہ تڑپ کسی ’نئی لیکس‘ سے ہی پوری ہوسکتی ہے، جس کا امکان فی الحال تو نظر نہیں آتا، کیونکہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر کے لیک ہونے نے ہی کافی رولا ڈال دیا تھا۔

وزیر اعظم نے جو سب سے اچھا کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے عین وقت فیصلہ کیا کہ وہ جے آئی ٹی کے روبرو بغیر کسی پروٹوکول کے پیش ہوں گے۔ وہ بغیر روٹ لگے کسی بڑے قافلے کے بجائے چند گاڑیوں کے ساتھ جوڈیشل اکیڈمی پہنچے۔

تحقیقات کے مرحلے سے گزرنے کے بعد انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے نہ صرف سارے الزامات مسترد کیے بلکہ پہلی بار انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے بلکہ نجی دولت کے بارے میں ان سے پوچھا جا رہا ہے۔

اس بار انہوں نے 6 رکنی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ وہ 20 کروڑ عوام کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم نے ایک اچھی روایت کی بنیاد رکھی اور خود اس جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے جسے ان کی جماعت قصائی کی دکان، نااہل اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہی ہے۔

جے آئی ٹی پر ایک طرف سپریم کورٹ کا دباؤ ہے کہ وہ معینہ مدت میں اپنا کام مکمل کرے تو دوسری طرف جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس سے اس بات کا برملا اظہار ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں روڑے نہیں بلکہ پہاڑ کھڑے کیے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود جس انداز سے تحقیقات کا سلسلہ چل رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات درست سمت میں گامزن ہیں۔

ایک عام آدمی اس کیس کے بارے میں کیا سوچتا ہے وہ اہم ہے، کیونکہ جب تک اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تب تک جو کچھ آج کل ہو رہا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

دوسری طرف سیاسی جماعتوں، خصوصاً وہ جن پر ماضی اور حال میں کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں، کی رائے یہ ہے کہ سولین کو تو ہر قسم کے احستاب کی چھلنی سے گزرنا پڑتا ہے لیکن ان سے حساب کتاب کی بات کوئی نہیں کرتا جو حساب مانگنے پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ وہ خود کو مقدس گائے قرار دیتے ہیں اور ان پر بات کی جائے تو ملک کی ناموس و سلامتی کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

ہم اس رائے کو ٹھیک مان بھی لیں، لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی ابتدا تو ہو۔ اس ملک میں جس سے حساب مانگیں تو جواب آتا ہے کہ قیام پاکستان سے آغاز کریں۔ دوسرے خود کو حساب دینے کا پابند ہی نہیں سمجھتے۔

لیکن پاکستان کے مروجہ سیاسی نظام سے فوری طور پر اچھائی کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے؟ چاہے حالات اس نہج تک ہی کیوں نہ پہنچ جائیں کہ آپ یہ رائے قائم کرنے میں بھی حق بہ جانب ہو جائیں کہ آپ کی پہلی رائے غلط تھی۔

’پاکستان تو بدل رہا ہے‘ آپ کو لگتا ہے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

یہ 24 دسمبر 2013 کی ایک سرد صبح کی بات ہے، جب وزیر اعظم آفس کے عقب میں نیشنل لائیبرری میں ملک کے سابق صدر مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی عدالت لگی تھی۔

سوچا تھا کہ اس ملک میں کچھ نیا ہونے جا رہا ہے۔ پاکستان کے آئین کی تکریم ہونے جا رہی ہے۔ وہ کتاب جسے مشرف اور اس کے پیشرو چند صفحات کا ایک کتابچہ کہتے تھے۔ وہ ایک کتاب ہی نہیں ایک ایسی دستاویز کا درجہ حاصل کرنے جا رہی ہے جس کے سامنے تمام ادارے جوابدہ ہوں گے۔

اس دن نیشنل لائیبرری کے آڈیٹوریم کو خصوصی عدالت کا درجہ دیا گیا تھا۔ کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ خاموشی بھی لازم تھی۔ وکلا کا بھی ہجوم تھا۔ تمام داخلی دروازوں پر مسلح فوجی جوان موجود تھے۔ باہر کی چار دیواری کے دونوں اطراف سیکیورٹی کا حصار تھا۔ وقفے وقفے کے بعد تیز قدموں کی آہٹ سے ہال میں موجود لوگوں کی نظریں داخلی دروازوں پر چلی جاتیں۔ اس دن ملک کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو اس عدالت میں پیش ہونا تھا۔ ان پر ملکی تاریخ میں پہلی بار آئین شکنی کا پہلا مقدمہ چلنا تھا۔

یہ تمام امیدیں جس کا ذکر ہو چکا، ہم اپنے تئیں باندھ چکے تھے۔

یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ مشرف صاحب کو سیکیورٹی کے خدشات لاحق ہیں وہ پہلی پیشی پر نہیں آئیں گے۔ عدالت نے تاریخ دے دی اور ہم اپنے خوابوں کی گٹھڑی لے کر واپس چل دیے۔

پھر ایک دن آیا کہ مشرف کے قافلے نے راول چوک اسلام آباد سے کلب روڈ کے بجائے پنڈی کا راستہ لیا اور اس کے بعد کراچی اور پھر وطن ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ بس پھر ہم نے خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیے۔

پاناما پیپرس اسکینڈل سامنے آنے کے بعد عمران خان صاحب نے لوگوں کو خواب دکھانا شروع کردیے کہ اس ملک میں حساب کتاب لیا جائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی آپ دیکھ چکے۔ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد جے آئی ٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور وزیر اعظم بھی اس کے روبرو پیش ہو چکے ہیں۔

اس سارے منظرنامے میں پہلی بار جب حسین نواز کی تصویر لیک ہوئی تو ایک طوفان سا مچ گیا۔ حکومت کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا ہے اس سے واضح محسوس ہوا کہ ان کی اپنی حکومت کے اندر ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے! یہ انتقامی کارروائی کون کر رہا ہے؟ یہ نہیں بتایا جا رہا۔

سوشل میڈیا پر ماضی کی شرمیلا فاروقی اور ان کی والدہ کی لاکپ کی تصاویر وائرل ہو رہی ہیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی کراچی جیل کے داخلی دروازے پر اپنے بچوں کے ہمراہ باہر آتے ہوئے کھینچی ہوئی تصاویر پر بھی تبصرے ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں کی جے آئی ٹی میں پیشیوں کے بعد حکمران جماعت کی پریشانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملہ واقعی سنجیدہ ہی نہیں سنگین بھی ہے۔ لوگوں نے امیدیں باندھنا شروع کردی ہیں کہ وزیراعظم بھی خود کو قانون کے سامنے جوابدہ سمجھنے لگے ہیں اور خود جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو کر جوابات بھی دیے ہیں۔ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

حساب کتاب مانگنے کی ابتدا تو ہو پھر دیگر کی بھی باری آئے گی۔ لیکن ایمانداری سے بتائیے کیا یہ سب کچھ آپ کو ممکن لگتا ہے؟

آپ بازار جائیں کسی ریڑھی والے سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ اس ملک کا نظام کیا ہے، مایوسیاں بانٹنا گناہ ہوتا ہے لیکن جو حقائق سے روگردانی کرے وہ پاگل ہوتا ہے!

میں نے بھی ایک ٹیکسی ڈرائیور سے یہ پوچھ لیا تھا، جب وہ شدید گرمی میں لگے روٹ پر سڑک کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اس دل جلے نے جواب دیا:

’صاحب ہم پر چند سو چوری کا مقدمہ درج ہو جائے تو عمر بھر سرکاری نوکری نہیں ملتی، لیکن جو کروڑوں لوٹ لیں وہ خود ہی سرکار بن جاتے ہیں۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

عمر بشیر خان Jun 17, 2017 06:59pm
یہ غلط بات ہے ۔ جنر ل پرویز مشرف صاحب کئ دفعہ عدالتوں میں پیش ہوئے تھے ۔ یہ تو پھر سب سے بڑی عدالت میں کے کہنا پر ایک اچھے ماحول کے کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ۔ جنرل مشرف صاحب تو چھوٹی چھوٹی عدالتوں میں پیش ہوئے ۔ شاید اسلام آباد کی مجسٹریٹ کی عدالت میں ان پر مسلم لیگ نون کے ایک حامی وکیل نے جوتا سے بداخلاقی کا مظاہرہ ہے ۔ اس لئے محترم اپنا ریکاڈ درست رکھے۔ یہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے۔ جنہوں نے میڈیا کو آزادی تھی ۔