سلیمانی ٹوپی اور فرشتے

اتوار، تیس جون، شام آٹھ بجے؛
تپتے دن کی گرمی کا عذاب سہنے کے بعد بستی ہزارہ ٹاون کے باسی کوئٹہ کی خنک شام کا لطف اٹھارہے ہیں۔ مرد چہل قدمی کر رہے ہیں جبکہ عورتیں دوکانوں اور پتھاروں سے گھریلو اشیاء کی خریداری کرتے ہوئے بھاؤ تاؤ میں مصروف ہیں۔ بچے اپنی ماؤں کی انگلیاں تھامے انہیں اپنی پسند کی اشیاء خریدنے پر مجبور کر رہے ہیں تاکہ اگلے دن اسکول میں مزیدار لنچ کا لطف اُٹھا سکیں۔
پاس کی ایک مسجد میں مغربین کی نماز ختم ہونے کے قریب ہے جہاں سینکڑوں "کافر" قبلہ رو ہوکے اپنے رب کی بارگاہ میں سر بہ سجود ہیں۔ایسے میں "سلیمانی ٹوپی" پہنےنورانی چہرے والا ایک صاف ستھرا مسلمان نوجوان کپڑوں پر خوشبو چھڑکائے کسی کی نگاہوں میں آئے بغیراور وردی والے فرشتوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے مسجد کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ سجدے میں مصروف کافر نمازیوں کو واصل جہنم کیا جائے۔
اس کے دل میں ایک طوفان برپا ہے۔ اسے جنت میں جانے کی جلدی ہے جہاں حوریں اپنا تمام کام چھوڑ کے بانہیں پھیلائے شدت سے اس کا انتظار کر رہی ہیں۔ انہوں نے ہاتھوں میں گلدستے تھام ر کھے ہیں جو اس کی گردن میں سجنے کے لئے بے تاب ہیں۔ یہ منظر ذہن میں ابھرتے ہی وہ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ رنگ و نور کا ایک جھماکا ہوتا ہے جس سے خریداری میں مصروف کافر ماؤں کے جسموں میں درجنوں سوراخ بن جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں ان کے کافر بچوں کی صرف انگلیاں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔ مٹر گشت میں مصروف کافر مردوں کے اجسام ٹکڑوں میں تبدیل ہو کر چار سو بکھر جاتے ہیں اور مسجد میں موجود کافر اپنا اپنا مصلیٰ لپیٹ کر جلدی سے باہر کی طرف دوڑپڑتے ہیں جہاں ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں اور آس پاس کی دیواریں خون سے سرخ ہیں۔ حکومتی اور خفیہ اداروں کے اہلکار پہلی ہی فرصت میں لاشوں کا حساب لگانے اور جہادی فرشتے کی کامیاب کاروائی کا اندازہ لگانے پہنچ جا تے ہیں۔
دوسری طرف ہزارہ ٹاون کے کافر بھی اپنے"شہیدوں" کی لا شیں اُٹھائے لبیک یا حسین کا ازبر شدہ نعرہ لگاتے ساتھ ہی واقع بی ایم سی ہسپتال پہنچ جاتے ہیں جہاں کا عملہ تمام دروازوں پر تالے لگا کے جا چکا ہے۔ مرنے والوں کے اجسام فرش پر پڑے ہیں جبکہ زخمیوں کی چیخ و پکار پورے ہسپتال میں گونج رہی ہیں۔ لوگ ڈاکٹر اور دیگر سٹاف کی تلاش میں ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں لیکن چونکہ ڈاکٹر اور باقی عملہ اپنے تمام دروازوں پر تالے لگا کے پہلے ہی کھسک چکا ہے اس لئے تمام مقتولین اور زخمیوں کو دوسرے ہسپتالوں کی طرف لے جایا جاتا ہے۔
اسی دوران بلوچستان کے ہوم سیکریٹری کا بیان سامنے آتا ہے جس کے مطابق حملہ آور برقعے میں تھا اس لئے اسے روکا نہ جا سکا حالانکہ نامحرم "کافروں" کی اس بستی میں برقعہ پہننے کا رواج ہی نہیں اور خواتین پردہ کرنے کے لئے مخصوص روائتی چادرنماز کا استعمال کرتی ہیں مگر ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سی سی پی او میر زبیر کا خیال ہے کہ حملہ آور کوئی اوزبک تھاجو ایک سائیکل پر جنت کی تلاش میں نکلا تھا۔ مقصد یہ کہ حملہ آو ر ہزارہ کے باسیوں سے مشابہت کی بناء پر ہی اپنے ٹارگٹ پر پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
سوموار، ایک جولائی، دوپہر دو بجے؛
ہزارہ ٹاون کے قبرستان میں اسٹیج سجا ہوا ہے۔ لوگوں کی بھیڑ جمع ہے۔ اس میں عورتیں اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ان کے سامنے سالوں سے جاری کھیل کا ایکشن ری پلے ہو رہا ہے اور وہ یہ منظر دیکھ دیکھ کر اس کے عادی ہوچکے ہیں لیکن ایک بار پھر دیکھنے پر مجبور ہیں۔ سیاسی رہنماء تقریروں کی تیاری میں لگے ہیں جبکہ ایک کونے سے عورتوں کے رونے اور سینہ کوبی کی آوازیں آرہی ہیں۔ مجمعے سے وقتاَ فوقتا مختلف روح پرورنعرے بلند ہو رہے ہیں جن سے حاضرین کے شوق شہادت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
لوگوں کو اپنے عوامی نمائندے کا انتظار ہے۔ انہیں سوفیصد یقین ہے کہ ایک بار پھر دھرنے کا اعلان کیا جانے والا ہے۔ بعض لوگوں کو اس بات کی امید ہے کہ پہلے کی طرح ایک بار پھر کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جائیگا۔ انہیں اس بات کی بھی توقع ہے کہ ابھی کچھ ہی دیر میں پنجاب سے آنے والے علمائے دین جلسہ گاہ پہنچ جائیں گے اور آن کی آن میں اپنی تند و تیزاور پر جوش تقاریر سے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے اور ایک بار پھر گور نر راج لگانے پر مجبور کردیں گے۔
لوگوں کو حکومتی نمائندوں کے آنے کی بھی امید ہے جو ہزارہ قوم کو تسلی کے دو بول ادا کر سکیں لیکن ان کے آنے کے فی الحال کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
لوگ باری باری آکر تقریریں کررہے ہیں جن میں وہی روایتی باتیں دہرائی جارہی ہیں، اتحاد اور اتفاق کی ضرورت پر زوردیا جارہا ہے اور شہداء کے درجات کی بلندی اور جنت الفردوس میں جگہ پانے کی نوید سنائی جارہی ہے۔ خود کش حملہ آور کو سراپا "جہنمی" قرار دیکر دھماکے میں "شہید" ہونے والے بچوں اور جوانوں کے لو احقین کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے حضرت علی اصغر اور حضرت علی اکبرکی شہادت کی مثالیں دی جارہی ہیں۔
کچھ لیڈر مسلح محافظوں کے جلو میں کھڑے ہوکر شہادت پانے کی آرزو کر رہے ہیں۔ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ شاید پہلے کی طرح ایک بار پھر حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے گا یا کسی قسم کے احتجاج کی کال دی جائے گی لیکن جلدہی انہیں اس بات کااحساس ہو جاتا ہے کہ یہ الیکشن سے پہلے کا موسم نہیں۔ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے والے اب خود حکومت کا حصہ ہیں اور انہیں کسی چھوٹی موٹی وزارت کے ملنے کی بھی توقع ہے لہٰذا کوئی الٹا سیدھا مطالبہ کرکے یا احتجاج کو طول دیکر وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی ہر گز نہیں مار سکتے۔
ویسے بھی کچھ غریب اور پسماندہ لوگوں کی موت اتنی اہمیت نہیں رکھتی جن کی وجہ سے مستقبل کے مفادات کو داؤ پر لگایا جائے، اس لئے نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد خاموشی سے ایک ایک کر کے "کافروں" کی میتوں کو قبروں میں اتارا جاتا ہے جن کے تابوتوں پر قرآنی آیات سے مزیّن چادریں پڑی ہیں۔
بظاہر کالعدم قرار دئیے جانے والے لشکر جھنگوی نے حسب روایت اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خلافت راشدہ کے نفاذ تک اپنی کاروائیاں جاری رکھنے کاعہد کیاہے۔ جہاں ان کے بیان سے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ اس نیک مقصد کی تکمیل کی راہ میں صرف ہزارہ قوم ہی رکاوٹ ہے وہاں کسی کو اس بات پر کویی حیرت نہیں کہ پورے شہر میں فصیلیں اور اونچی دیواریں تعمیر کرنے اور قدم قدم پر ناکے لگانے کے باوجود حکومت ان دہشت گردوں کا راستہ روکنے میں ناکام کیوں ہے؟
اگر عام لوگوں کو اس پر حیرت ہے تو وہ اس کا کھل کر اظہار نہیں کر رہے۔
بدھ، جولائی تین، شام آٹھ بجے
آج بلوچستان میں ایک نئی حکومت ہے۔ ملک و صوبے میں بہت سے لوگ اس آخری امید پر زندہ ہیں کہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک ایک مختلف آدمی ہیں۔ ان کے بہت سے فیصلے روایتی سیاستدانوں سے مختلف ہیں اور یہی بات اس امید کو سہارا دیتی ہے۔ کوئٹہ شہر کو خانہ جنگی سے محفوظ رکھنے اور فرقہ واریت کی آڑ میں ہزارہ قوم کی نسل کشی کے سدّباب کے لئے واضح اور دو ٹوک پالیسی اور دوستی کے نام پردشمنی کے مرتکب ہونے والے ممالک سے اس سلسلے میں کھل کر بات چیت سیدھی سادھی باتیں ہیں مگر روایتی سیاستدانوں سے انہیں کبھی سا کی توقع نہیں رہی۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ آخری امید بھی دم توڑ جایے گی اور لوگ صرف اس ڈرامے کا ایکشن رےی پلے ہی دیکھتے رہیں گے؟
تبصرے (10) بند ہیں