جرمنی میں نازیوں کی سیاہ حکومت کے دوران چند ایسے بھی جرمن تھے جو ایڈولف ہٹلر اور ان کی نازی پارٹی کے ماتحت نیم عسکری تنظیم شوٹز اسٹافل (ایس ایس) اور گسٹاپو نامی ریاست کی خفیہ پولیس کے خوف پر ٖغالب آئے اور کئی یہودیوں کو موت کے منہ سے بچالیا۔

وہ نظریہ جو جرمن باشندوں کے درمیان یہودیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا پرچار کرتا تھا، اس کے خلاف ان لوگوں نے انسانی یکجہتی کی مثال پیش کی۔

اس کی بہترین انداز میں عکاسی آسکر شنڈلر کے مشہور زمانہ تخیل میں ہوتی ہے، وہ ایک جرمن تاجر تھے جنہوں نے ایک ہزار سے زائد پولش یہودیوں کی زندگیاں بچائی تھیں۔ ان کی زندگی کو آسٹریلین ناول نگار، تھامس کینیلی نے اپنے ناول شنڈلرس آرک میں اپنے تخیل میں پیش کیا ہے، 1993 میں اسٹیون اسپیلبرگ نے اسی ناول پر شنڈلر لسٹ کے نام سے فلم بنائی۔

فلم نے شنڈلر کو انسان دوستی کی عالمی مثال میں بدل دیا، وہی انسان دوستی جو ہمیشہ بربریت کی برائی کی زد میں رہتی ہے۔

مئی 1945 میں یورپ میں دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے دو سال بعد — اور ان یہودیوں، جنہیں شنڈلر نے تحفظ فراہم کیا تھا، کی آزادی کے بعد — برٹش حکومت سے آزادی حاصل ملنے پر ہندوستان بھی نفرتوں کی آگ پھیل گئی۔

69 سال پہلے، آزادی کی جھنکار، ان لاکھوں کی موت کا نقارہ محسوس ہوا، جو تقسیم ہندوستان کے دوران مشرقی اور مغربی پنجاب میں ہونے والے نسلی فسادات کی زد میں آ کر مارے گئے۔ ہمارے اندر موجود وحشت نے ملک میں موت اور بربادیوں کے سائے پھیلائے۔

لیکن جس طرح نازی جرمنی میں چند انسان دوست لوگ تھے ویسے ہی ہندوستان اور پاکستان میں چند ایسے افراد تھے جو فرقہ وارانہ نفرت سے پاک تھے۔ انہوں نے نہ صرف جان لیوا مشتعل ہجوم میں شامل ہونے سے انکار کیا بلکہ چند نے تو زندگی داؤ پر لگاتے ہوئے دیگر مذہبی برادریوں کے لوگوں کی زندگیوں کو بچایا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان کے شنڈلر تھے— لیکن ان میں سے زیادہ تر گم نام ہی رہے، ان میں سے زیادہ تر کی قدر ہی نہیں کی گئی اور شاید ہی ان میں سے کسی کا ذکر ہماری تاریخ کے اوراق میں پڑھنے کو ملے۔

اب جبکہ دونوں ملک اپنا 70 واں جشن آزدی منا رہے ہیں، تو پیش خدمت ہے ان چھوٹے شنڈلروں کی ایک فہرست جنہوں نے بہادری کے ساتھ لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔ یہ ایک جامع فہرست تو نہیں بلکہ اس کا تعلق دہلی اور غیر تقسیم پنجاب سے ہے۔ مندرجہ ذیل شامل نام اشتیاق احمد کی کتاب دی پنجاب: بلیڈیڈ، پارٹیشنڈ اینڈ کلینزڈ سے منتخب کیے گئے ہیں— کتاب میں آنکھوں دیکھے واقعات کو قلمبند کیا گیا تھا۔

ہریجن بابا، جنہوں نے مغوی خواتین کو بچایا

پرتشدد تقسیم ہند کا ایک ہولناک پہلو یہ بھی تھا کہ اس دوران تقریباً ایک لاکھ خواتین اغوا ہوئی تھیں۔ جس کے فوراً بعد، انٹر ڈومینین معاہدے کے تحت، جس پر ہندوستان اور پاکستان دونوں نے 6 دسمبر 1947 کو دستخط کیے تھے، ہندوستان اور پاکستان میں اغوا ہونے والی خواتین کی تلاش کا آپریشن شروع ہوا۔

دہلی سے 200 مسلمان خواتین بازیاب ہوئیں۔ نہ جانے کتنی خواتین کی مدد ایک بوڑھے ہریجن (جنہیں اب دلت کہا جاتا ہے) نے کی تھی۔ ان کا نام بھی نہ جانے کیا تھا اور نہ جانے کیا کرتے تھے۔ لیکن جب سماجی کارکن انیس قدوائی نے خواتین سے پوچھا کہ وہ کس طرح اغواکاروں کے چنگل سے فرار ہوئیں تو ان میں سے کئی خواتین نے جواب دیا کہ، "ایک بوڑھے ہریجن مجھے گھر لے آئے۔"

ہریجن بابا کے بارے میں قدوائی، تقسیم ہند اور آزاد ہندوستان کے پہلے دو سال کی یاداشت پر لکھی کتاب، 'ان فریڈمز شیڈ' میں کہتی ہیں کہ، "چند (اٖغوا ہونے والی خواتین) کو سماجی کارکنوں نے بازیاب کروایا تھا، چند کو جمعیت کے کارکنوں جبکہ چند کو پولیس نے بازیاب کروایا تھا۔ جبکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کو ایک آدمی نے اکیلے بازیاب کروایا۔ اس عظیم چمار نے اغوا ہونے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو بازیاب کروایا اور خفیہ طور پر انہیں ان کے گھروں تک پہنچایا۔ کاش میں کبھی ان کا نام بھی جان پاتی لیکن یہ ہمشیہ ایک راز ہی بنا رہے گا۔"

وہ واقعی ہندوستان کے 'ہری جن’ تھے۔

راولپنڈی کا ایک نامعلوم خاکسار

تقسیم ہند سے چند مہینے قبل 5-6 مارچ کی صبح راولپنڈی کے گورڈن کالج کے باہر قرآن کے شہید اوراق پائے گئے۔ ایک خاکسار نے پاک اوراق کو اکٹھا کیا اور ایک کنویں میں ڈال دیا۔ علاقے میں فساد نہ پھوٹ پڑیں اس لیے وہ لوگوں کا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے ہندو-سکھ کولونی میں داخل ہوئے۔ خاکسار کو چھری گھونپ کر مار دیا گیا۔

ان دنوں گورڈن کالج میں میتھمیٹکس کے لیکچرار خواجہ مسعود احمد بتاتے ہیں کہ، "بلاشبہ اس سفاک جرم کے پیچھے آر ایس ایس کا ہاتھ تھا۔ جس کے بعد فسادات، آتش زنی، لوٹ مار اور چاقو زنی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔"

خاکسار ایک عسکریت پسند اسلامی گروپ تھا جسے عنایت اللہ خان مشرقی نے ہندوستان سے برٹش کو باہر دھکیلنے کے لیے تشکیل دیا تھا، جو کہ مسلم لیگ کا سخت مخالف تھا۔ چند خاکساروں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی لیکن راولپنڈی کے خاکسار اپنے کمانڈر اشرف خان کے وفادار رہے، جو انہیں فسادات کے دوران ہندوؤں اور سکھوں کو تحفظ فراہم کرنے پر آمادہ کرتے۔

اشرف خان کے بارے میں راولپنڈی سے ہندوستان آنے والے امر سنگھ نے بتایا کہ، "میں خاکساروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، خاص طور پر ان کے رہنما اشرف خان کو، انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کئی سکھوں اور ہندوؤں کی زندگیوں کو بچایا۔"

ایک اور جشم دید گواہ راشد اسحاق کہتے ہیں کہ، "ہمارے رہنما اشرف خان نے ہم سے عہد لیا تھا کہ کوئی بھی شخص اگر مشکل میں ہوگا تو ہم اسے تحفظ فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسی لیے، خاکسار ہمیشہ آگے آگے رہے اور کئی غیر مسلموں کی زندگیوں کو بچایا۔"

دت برادران اور ڈاکٹر عبدالرؤف

تقسیم ہند کے دوران جاری پرتشدد واقعات کے دوران ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ امرتسر کے ایک ہسپتال پر ہندو- سکھ مشتعل ہجوم نے حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر پرشوتم دت اور ان کے بھائی نارائن داس نے اپنی بندوقیں نکالیں اور حملہ آوروں سے مقابلہ کیا۔

ڈاکٹر نے مشتعل افراد سے مخاطب ہو کر کہا کہ، "آپ لوگوں کا یہ رویہ بزدلانہ ہے، تم لوگوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ اپنی حرکت پر شرمندہ ہو یا پھر یہاں سے چلے جاؤ، ورنہ جب تک ہم دو بھائی زندہ ہیں اور ہماری رائفل میں گولیاں ہیں، ہم تم لوگوں کو ہسپتال میں موجود مسلمان مریضوں کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیں گے۔" اور ہجوم منتشر ہو گیا۔

جبکہ امرتسر کے ایک مسلمان ڈاکٹر، ڈاکٹر عبدالرؤف نے اس سے مختلف منطق اپناتے ہوئے کترا کرم سنگھ کے علاقے میں پھنسے 200 غیر مسلموں کی زندگیوں کو بچایا۔ ڈاکٹر رؤف کو کہا گیا کہ وہ خود ان لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کریں۔

اگرچہ مسلمانوں کو فوجی تربیت بھی دی تھی لیکن ڈاکٹر رؤف نے وہاں ان لوگوں کو اخلاقی کردار پر اسلامی تعلیمات کا درس دیا جو امرتسر کے دیگر علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ کی گئی بد سلوکی کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ تمام غیر مسلموں کو چھوڑ دیا گیا۔

ایک سکھ جس نے سینکڑوں مسلمانوں کو پناہ دی

مارچ 1947 میں تشدد کی لہر نے امرتسر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، اور کئی علاقوں میں ہندو-سکھ اور مسلمانوں کو آپس میں جیسے جنگ لڑتے دیکھا گیا۔ ایک آدمی جنہیں آج بھی لاہور میں بسے امرتسری مسلمان یاد کرتے ہیں، وہ تھے باوا گنشام، ایک سکھ جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رکن تھے۔

انہوں نے سینکڑوں مسلمانوں کو اپنے گھر پر پناہ دی۔ ایسے جشم دید واقعات کی ایک بہت بڑی تعداد موجود جن میں تقسیم ہند کے دوران ہونے والے پرتشدد واقعات کے دوران سرحد کے دونوں طرف کمیونسٹوں نے قابل ستائش کردار ادا کیا۔

ایک ماں کا جذبہ اور ان کے سات بیٹے

ضلع جہلم کے گجیال گاؤں میں سات بھائی رہتے تھے، جو برٹش فوج میں شامل تھے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران انہیں جرمنوں نے پکڑ لیا تھا۔ ان کی تنخواہوں اور جائیداد کا انتظام رگھبیر سنگھ ساہنی کے والدین نے کیا تھا۔

جب حملہ آوروں نے گجیال گاؤں پر حملہ کیا تو 70 سکھوں نے ساہنیوں کے پاس پناہ لی۔ سات بھائیوں کی ماں نے ان سے بلند آواز میں کہا، "مے دودھ تڈ بخشاں گی جے تسی اُنادے کم آئے۔" (میں تب دودھ بخشوں گی اگر تم ان لوگوں کے کام آئے۔)

یہ بھائی ساہنی کے گھر کی چھت پر چڑھ کر اپنی بندوقوں کے ساتھ مورچہ بند ہو گئے، اور حملہ آوروں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے سکھوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔ جس کے بعد حملہ آور پیچھے ہٹنے لگے۔

سکھوں کو چکوال بھیجا گیا اور وہاں سے پھر پٹیالہ۔ ساہنی کو یاد ہے کہ ان میں سے ایک بھائی کا نام بوستان خان تھا۔

ایک پولیس افسر جنہوں نے مسجد کی حفاظت کی

17 اگست 1947 کو مشرقی پنجاب میں واقع فیروز پور میں لالا دھنی چند نے ملک محمد اسلم کے والد کو اطلاع دی کہ آر ایس ایس اور سکھ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ٹھیک رات 10 بجے حملہ شروع ہو گیا۔ تقریباً 300 مسلمانوں نے ایک مقامی مسجد میں پناہ لی۔ مسجد میں پناہ اس لیے لی گئی تھی کیونکہ وہاں سے پولیس اسٹیشن قریب واقع تھا۔

اسٹیشن کے ہیڈ افسر ترلوک ناتھ نے جلد ہی مسجد کے باہر مسلح مسلمان اہلکاروں کو تعینات کر دیا۔ ناتھ دیگر افسران سے مختلف تھے کیونکہ پنجاب میں کئی پولیس افسران جانبداری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اسلم بتاتے ہیں کہ ناتھ کی یہ غیر جانبداری ہی تھی جس کے باعث مسجد پر حملہ نہیں ہوا تھا۔

اسلم کے والد اپنے ساتھ مسجد میں انسولین انجیکشن نہیں لائے تھے۔ ان کا شوگر لیول کا بڑھنے کی وجہ سے وہ شدید بیمار ہو گئے تھے۔ صبح 3 بجے دھنی چند کے بیٹے امر ناتھ شہر میں کرفیو نافذ ہونے کے باوجود چھپتے چھپاتے مسجد آئے اور اسلم اور ان کے والدین کی خیر و عافیت دریافت کی۔ امر ناتھ نے کہا کہ وہ اپنے والد کی میڈیسن کی دکان سے لے آئے گا۔

امر ناتھ پھر کبھی نہیں لوٹا۔

اسلم کو بعد میں پتہ چلا کہ امر ناتھ کو آر ایس ایس والوں نے مسلمانوں کی مدد کرنے پر گولی مار دی تھی۔ ان کے بقول، "مجھے اب بھی یاد ہے کہ اس رات جب امر ناتھ میرے والد کے لیے دوائی لینے اپنی دکان پر جا رہا تھا کہ اسے اس کی اپنی برادری سے تعلق رکھنے والوں جنونیوں نے قتل کر دیا۔ اس کے والد اور والدہ پر تو جیسے قیامت ٹوٹی ہوگی۔"

اسلم کے والد بھی شدید علالت کے باعث پاکستان جانے والے قافلے میں شامل نہ ہو سکے اور وہ بھی وفات پا گئے۔

ایک آشرم جو ایک پناہ گاہ بنا

دہلی اور اس کے گرد و نواح میں جہاں ہر جگہ فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑک رہی تھی وہاں ناریلا کے سوامی جی کا ایک چھوٹا آشرم مسلمان کسانوں کے لیے ایک پناہ گاہ بن گیا۔ اس دوران انہیں لٹیروں سے بچانے کی خاطر کئی دنوں تک خود محافظ بنے رہے۔

جب پر تشدد واقعات میں تھوڑی کمی آئی تو سوامی جی نے انہیں اتر پردیش میں اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں عارضی قیام کرنے کو کہا، یہی نہیں بلکہ یمنا ندی پار کرتے وقت ان کے ساتھ ساتھ رہے تا کہ کوئی ان پر حملہ نہ کرے۔

سوامی جی نے وعدہ کیا کہ جیسے ہی حالات ٹھیک ہوئے تو وہ جلدی ہو سکا اتنا جلدی ان کی واپسی کا بندو بست کریں گے۔

ان پڑھ، سوامی جی نے مسلمانوں کو واپس بلانے اور انہیں پھر سے یہاں بسانے کی اجازت حاصل کی۔ وہ مہینوں تک ان کے آشرم میں رہے، جبکہ سوامی جی نے زمینداروں کو ان کے رواجی مزارع حقوق بحال کرنے کی ترغیب دی۔

قدوائی کو سوامی جی کا نام یاد نہیں ہے، چونکہ وہ کانگریس کے رکن تھے اس لیے میں نے لکھاری اور دانشور گوپال کرشنا گاندھی کو ان کی شناخت میں مدد کرنے کو کہا۔ انہوں نے مجھے سپریم کورٹ کے وکیل، انیل نؤریا کے پاس بھیجا، کیونکہ وہ قومی تحریک میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے کافی کچھ لکھا بھی ہے۔ کیمبریج یونیورسٹی کے سینٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے آرکائیوز تک رسائی حاصل کرنے کئ بعد نؤریا نے ان کی شناخت سوامی سروپ آنند جی کے طور پر کی۔

قدوائی نے لکھا کہ، "سوامی جی جیسے نفیس کانگریسیوں سے ملنے کے بعد، میں اکثر سوچتا ہوں کہ آدمی ایک بار پھر اپنی دیہی علاقوں سے ابھرا۔ باپو کے اعمال بے رائیگاں نہیں گئے۔ انہوں نے چند درخت لگائے، جس کے سائے میں خستہ حال انسانوں کو قرار آیا۔"

ٹپیالہ دوست محمد گاؤں کی امن کمیٹی

یہ گاؤں ضلع شیخوپورہ، لاہور ڈویژن میں واقع ہے۔ اس گاؤں کی دو تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، جبکہ باقی کھتری ہندو تھے اور دو سکھوں کے خاندان آباد تھے۔ جب تپیالہ کے گرد و نواح میں پاکستان کی آزادی جشن منانے کے دوران ہتھاروں کی نمائش کی جانے لگی تو یہاں کے رہائشیوں نے آپس میں مل کر امن کمیٹی تشکیل دی۔

25 اور 26 اگست 1947 کو تقریباً 1500 بیرونی مسلح افراد نے تپیالہ پر حملہ کر دیا۔ 60 کھتری ہندو خاندانوں نے خود کو دو بڑے گھروں میں بند کر دیا۔ حملے کرنے والے امن کمیٹی کی مزاحمت پر غالب آ چکے تھے— اور دو گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ ہندو خواتین فرار ہونے کی کوشش کرتیں، چند ہندوؤں نے خود ہی اپنے گھر کی خواتین کو قتل کر دیا۔

صبح کے قریب 11 بجے حملہ آور واپس لوٹ گئے۔ گربچن سنگھ ٹنڈن، جو کہ اس وقت آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے، پر کہاڑی سے وار کیا گیا جس کے بعد وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ ان کے بھائی کو قتل کر دیا گیا لیکن کے گھر کے بڑے سلامت رہے۔

زندہ بچ جانے والوں نے مزید 10 سے 12 دنوں تک گاؤں میں ہی پناہ لی۔ اس دوران ان پر مزید تین حملے بھی کیے گئے، جس کی ہر مزاحمت گاؤں کی امن کمیٹی نے کی جو اب پہلے سے کافی بہتر انداز میں مقابلے کے لیے تیار تھی۔ ٹنڈن بتاتے ہیں کہ "مجھے امن کمیٹی کے صرف دو ممبران کا نام یاد ہے، ان میں سے ایک چودھری معاف علی تھا اور دوسرا شیخ محمد بشیر۔

وہ آدمی جس نے سنیل دت کے چچا کو بچایا

مرحوم فلمی ستارے سنیل دت کا آبائی گاؤں خرد تھا، جو جہلم شہر سے 20 کلومیٹر دور واقع تھا۔ انہیں ان کے تایا جی نے پالا تھا جو کہ وہاں کے بڑے زمینداروں میں سے ایک تھے۔ جب فوج نے ہندوؤں سے علاقہ خالی کرنے کے لیے کہا تو سنیل دت کے تایا جی نے جانے سے انکار کر دیا۔

جمعے کے خطبے کے دوران مقامی مولوی نے کہا کہ خرد میں غیر مسلم کیوں قیام پذیر ہے۔ سنیل دت کے تایا جی وہاں سے ساتھ والے گاؤں نواں کوٹ چلے آئے جہاں سنیل دت کے والد کے ہم کلاس یعقوب رہتے تھے۔ جب خرد میں دت کی غیر موجودگی کا پتہ لگا تو حملہ آور اچانک یعقوب کے گھر میں گھس آئے۔

لیکن یعقوب اور ان کے بھائیوں نے بندوقیں نکالی اور کہا کہ انہیں اپنا مہمان اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ دت نے مرنے سے قبل خود یہ بات ڈاکٹر اشتیاق احمد کو بتائی تھی۔

یعقوب نے سنیل دت کے تایا جی کو گھوڑا دیا تا کہ وہ آدھی رات کو جہلم کی پناہ گزیں کیمپ تک پہنچ جائیں۔

پاکستانی کھلاڑی انضمام الحق کے گھر والوں کو بچانے والا

دورہ ہندوستان کے دوران ایک نوجوان نے انضمام الحق سے ملاقات کی اور انہوں نے اپنی والدہ پشپا گویل کا نمبر انضمام الحق کو دیا، اور درخواست کی کہ یہ نمبر وہ ملتان میں اپنے والدین تک پہنچائیں۔

پھر ملتان سے فون آیا۔ انضمام الحق کے والد پشپا کو نہیں بھولے نہیں تھے، پشپا کے والدین نے ہی ہریانہ کے ضلع ہسار میں واقع ہانسی میں جان کے درپے مشتعل ہجوم سے انہیں اور ان کے گھر والوں کو بچایا تھا۔

پشپا کو انضمام الحق کی شادی کی پر مدعو کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ، "ایسا لگا کہ جیسے میں اپنے گھروالوں کے درمیان لوٹ آئی ہوں۔ ملتان میں گزارا ہوا وقت میں کبھی بھول نہیں سکتی۔"

لیکن آج لگتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ان ہیروز کو فراموش کر چکے ہیں جنہوں نے پرتشدد تقسیم ہند کے دوران اپنے جوکھم بھرے کاموں سے ہمیں سبق دیا کہ انسانیت کا مطلب کیا ہوتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر اسکرول پر شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

zulfiqar Aug 15, 2017 12:33pm
few human among hundreds of thousand animals.... shame for us
Kashif Muhammad Aug 15, 2017 02:29pm
well written, untold n unseen truth
Tipu Aug 16, 2017 12:16am
Insaan aur janwar har firqay may hatay hain. Panchon ungliyan barababar nahi hoti. Allah esay insaano ko zaroor ajar day ga.
AK Aug 17, 2017 01:48pm
Thumbs up dawn . . . Thumbs up writer . . .