پاکستان کی زیادہ تر سرکاری یونیورسٹیوں کے ریسرچ پروگرامز کی حالت بالکل بھی اطمینان بخش نہیں بلکہ ریسرچ کے نام پر مذاق کیا جاتا ہے۔ جب بات ریسرچ اور سائنسی تحقیق کے مقصد کی آتی ہے تو اصل مسئلہ یونیورسٹیوں کے اپنے مخصوص وژن میں نظر آتا ہے۔

یونیورسٹیاں 2002 کے بعد سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی شروع کردہ ریس میں اپنی رینکنگ بہتر بنانے کی خاطر ریسرچ پروگرامز ترتیب دیتی ہیں۔ چونکہ رینکنگ کا انحصار ریسرچ پیپرز کی اشاعت پر ہوتا ہے، چنانچہ یونیورسٹیاں ریسرچ پیپرز چھاپنے والے کارخانے بن جاتی ہیں۔

زیادہ سے زیادہ تعداد میں پبلیکیشن حاصل کرنے کے مقصد سے ہر سال سرکاری یونیورسٹیاں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامز میں ریسرچرز کے داخلے کے لیے سبجیکٹ کی بنیاد پر داخلہ ٹیسٹ کا اہتمام کرتی ہیں۔ اکثر اوقات 50 فیصد نمبر حاصل کرنے والے اسکالرز کو داخلہ دے دیا جاتا ہے۔ جبکہ چند موقعوں پر تو 40 سے 30 فیصد سے بھی کم نمبر لینے والے کے لیے بھی گنجائش نکال لی جاتی ہے۔

اب آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اپنے مرکزی سبجیکٹ میں 30 فیصد سے بھی کم نمبر لینے والا طالب علم کس معیار کی ریسرچ کرے گا۔ ہر سال ایسے 20 سے 30 اسکالرز کو ریسرچ کروانے والے شعبے میں داخلہ دے دیا جاتا ہے۔

پڑھیے: پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں؟ سوچ لیں

یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ ایسی کسی بیچ میں ایک بڑی تعداد کریئر میں آگے بڑھنے کے خواہشمند ملازم پیشہ مرد اور خواتین کی ہوتی ہے، جس کا تذکرہ ڈاکٹر ادریس خواجہ نے اپنے ایک مضمون 'پارٹ ٹائم پی ایچ ڈی' میں بھی کیا ہے۔

یہ پارٹ ٹائم ریسرچرز، جو عام طور پر دن میں کام کرتے ہیں اور ایوننگ پروگرامز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہوتے ہیں، وہ اپنی ریسرچ محدود وقت اور محنت کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ریسرچ کرنے کے بجائے ریسرچ نپٹاتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ کس طرح اس ضروری اور ’آسان’ سی ڈگری کو بغیر زیادہ محنت اور وقت کے حاصل کرنی ہے۔

خوش زبانی اور جان پہچان بڑھانے کے فن کی مدد سے وہ اپنے شعبوں کے اہم فیکلٹی ممبران کے ساتھ دوستیاں رکھ لیتے ہیں۔ پھر شروع ہوتا ہے کچھ لیں کچھ دیں کا سلسلہ۔ وہ جتنا جلدی اور بہتر سہولیات اپنے سپروائزرز کو فراہم کرتے ہیں اتنا ہی جلدی اور آسانی سے وہ ڈگری حاصل کر لیتے ہیں۔

طلبہ کا ایک حصہ ایسا بھی ہوتا جو ڈگری مکمل ہونے کے بعد ملازمت کی تلاش میں ہوتے ہیں، لیکن وہ اپنی اس تلاش کے دوران اپنا وقت سودمندانہ طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن کچھ، بلکہ بہت ہی کم، ایسے بھی طلبہ ہوتے ہیں جو بڑی سنجیدگی اور باقاعدگی کے ساتھ ریسرچ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور یہی وہ گروہ ہوتا ہے جسے ایک ایسے ماحول میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جہاں ریسرچ کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی۔

پڑھیے: پاکستان کی 'پروفیسر مافیا' کس طرح تعلیم کو تباہ کر رہی ہے

کورس ورک کا دورانیہ ایک سال ہوتا ہے، اور یہ پی ایچ ڈی کا نسبتاً سب سے آسان حصہ ہوتا ہے۔ اصل ریسرچ کا کام کورس ورک مکمل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے، اور یہیں پر ایک مشکل مرحلے کی شروعات بھی ہوتی ہے۔

زیادہ تر سرکاری یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے ریسرچ کا مرحلہ ریسرچر کی دلچسپی کے ریسرچ ایریا یا پھر ریسرچ پرابلم کے انتخاب سے شروع ہوتا ہے۔ تحقیقی موضوع کے انتخاب کے بعد ریسرچ کی نگرانی کے لیے اسکالر ایک سپروائیزر کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کے بعد ریسرچر مجوزہ مسودے یا پروپوزل کی تیاری شروع کرتا ہے جس میں وہ مسئلے کے حل کے لیے طریقہ کار یا پھر ریسرچ کون سی سمت اختیار کرے گی، کے بارے میں خلاصہ پیش کرتا ہے۔

پھر پروفیسرز کی ایک کمیٹی مجوزہ مسودے کا گہرائی سے جائزہ لیتی ہے اور ریسرچ کے لیے منظور کرتی ہے یوں ریسرچ شروع کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بعد ازاں، منظور شدہ مجوزے کی بنیاد پر ریسرچ کی جاتی ہے اور نتائج پر تبادلہ خیال کے بعد ایک مسودہ تیار کیا جاتا ہے۔

اب اسکالر کو اپنی ریسرچ کے نتائج پیش کرنے ہوتے ہیں — پہلے، ایک سے زائد سیمیناروں میں اور بعد میں آخری زبانی امتحان کے لیے دو بیرونی جائزہ کاروں پر مشتمل ٹیم کے آگے پیش ہونا ہوتا ہے۔ آخر میں، تھیسز کو بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ (بی اے ایس آر) کی منظوری ملنے کے بعد اسکالر کو پی ایچ ڈی ڈگری سے نوازا جاتا ہے۔

یہ ایک تھکا دینے والا مرحلہ ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے۔ لیکن کئی پاکستانی سرکاری یونیورسٹیوں میں طلبہ اس پورے مرحلے سے گزرنے کے بجائے، اپنے سپروائیزرز کے ساتھ سمجھوتے سے کام نپٹاتے ہیں۔

یہ پروفیسر اور اسکالر کے درمیان ایک زبانی معاہدہ کی طرح ہوتا ہے کہ جتنا ایک طالب علم زیادہ ادا کرے گا — یا غیر نقدی فوائد فراہم کرے گا — اسے ریسرچ کے مرحلے میں اتنی ہی کم سے کم محنت کرنی پڑے گی۔

چند ایسے بھی کیسز ہوتے ہیں جہاں سپروائیزر طالب علم کا سارا کام، تحقیق کے بارے میں خلاصے (سیناپسس) سے لے کر، سیمینار پریزنٹیشن، تھیسز لکھنے، اور آخر میں، اس پر جائزہ لینے اور اسے منظور کروانے تک، سب کچھ کرتا ہے۔ لیکن عام طور پر، انہیں جزوی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔

پڑھیے: یونیورسٹیز کو کیسے پرکھا جائے

اسی لالچ کی وجہ سے، کئی پروفیسرز کے زیر نگرانی ای ایچ سی کی مقررہ حد سے زائد طالب علم ہوتے ہیں۔ چند یونیورسٹیوں میں، ایک تنہا پروفیسر ایک ہی وقت میں 20 سے زائد ریسرچرز کی رہنمائی کرتا ہے۔ ایچ ای سی کی شرائط کے مطابق ایک سپروائیزر کو ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ 5 اسکالرز کی رہنمائی کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

ہاں مخصوص حالات میں اگرچہ ایک سپروائیزر کے ریسرچ پیپرز کی ایک اچھی خاصی تعداد امپیکٹ فیکٹر جرنلز (وہ جرائد جن کے تحقیقی مضامین کا حوالہ دیگر کئی تحقیقات میں درج ہو) میں چھپ چکی ہیں تو پھر وہ ایچ ای سی کی اجازت کے بعد 8 اسکالرز کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ کئی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ نہ تو سپروائیزنگ پروفیسر اس معیار پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی مناسب اجازت لینے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے۔

ریسرچ کے اختتام پر، ایم فل طلبہ کو اپنی ریسرچ دو شعبہ جاتی سیمینار میں پیش کرنی ہوتی ہے۔ جبکہ پی ایچ ڈی طلبہ کو ایک اضافی سیمینار میں بھی پیش کرنی ہوتی ہے (مطلب مجموعی طور پر 3 سیمینار)۔

اسکالر کی سیمینار پریزنٹیشن کی پہلے سے زبردست تیاری یا مشق ہو چکی ہوتی ہے۔ ممکنہ سوالات بتا دیے جاتے ہیں اور ان کے جوابات بھی تفصیلاً بتائے گئے ہوتے ہیں۔ کئی موقعوں پر تو سپروائیزر کے سرکل میں سے ہی کسی ایک کو سیمینار کے دوران پوچھنے کے لیے، پہلے سے زیر گفتگو لائے گئے، سوالات تھما دیے جاتے ہیں تاکہ مشکل سوالوں کا حساب برابر ہو جائے۔

دو شعبہ جاتی سیمیناروں کی منظوری اور نگرانی کا کام ڈین فیکلٹی کا ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ڈین کو سپروائیزر بنانے کے پیچھے کیا منطق ہے۔ ہر فیکلٹی تدریسی اور تکینیکی طور پر کئی مختلف شعبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ڈینز کو کسی ایک شعبے کی متعلقہ فیکلٹی میں سے سینارٹی کی بنیاد پر مقرر کیا جاتا ہے۔

مثلاً، نیچرل سائنس کا ڈین جو اصل میں فزکس شعبے سے تعلق رکھتا ہے، تو جب ان کے سامنے پلانٹ سائنس یا کمسٹری کا اسکالر اپنی ریسرچ پیش کرے گا تب انہیں ہی اس اسکالر کا کام سپروائیز کرنا ہوتا ہے بلکہ یہی نہیں اس پر تبصرہ کرنا ہوگا اور یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ آیا اسکالر کا کام منظور کرنے لائق ہے یا نہیں۔

اسی طرح سے آرٹس کی فیکلٹی کے ڈین اصل میں عربی زبان و ادب کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں انگریزی و ادب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ریسرچر کے پیش کردہ موضوع، ولیم بلیک کی شاعری میں خوبصورتی کے تصور کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔

پڑھیے: پاکستان کی یونیورسٹیوں پر جنات کا حملہ

یہ نہ صرف تکنیکی طور پر غلط ہے بلکہ سپروائیزنگ ڈین کے لیے بھی اتنا ہی باعث شرمندگی بھی ہے۔ ایسے سیمیناروں سے کیا نتائج برآمد ہوں گے، یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ ہر سیمینار میں پانچ منٹوں پر محیط سوال و جواب اور تبصروں کے سلسلے کے بعد شرکاء، جن میں زیادہ تر تعداد گریجوئیٹ طلبہ اور ریسرچرز کے چند دوست شامل ہوتے ہیں، کی تالیوں کی گونج میں ریسرچ کی قبول کر لیا جاتا ہے۔

پی ایچ ڈی طلبہ کے لیے جو ایک اضافی سیمینار ہوتا ہے اس کی نگرانی وائس چانسلر اور متعلقہ شعبے کا ایک بیرونی ماہر کرتا ہے۔ اس سیمینار کے مرحلے کو پار کرنا بھی شعبہ جاتی سیمیناروں کو پار کرنے جتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ وائس چانسلر کو بیرونی ماہر کی تکنیکی رائے کی بنیاد پر سیمینار قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ کئی موقعوں پر یہ ماہر کافی دوستانہ اور مصالحتی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اس ماہر کی سپروائیزر کے ساتھ احسانات کا بدلہ اتارنے کی ڈیل ہوئی ہوتی ہے۔ یوں آج ان کی فراہم کردہ سہولت کا بدلہ سپروائیزنگ پروفیسر کل اتاریں گے۔

یہ بیرونی جائزہ کار صنعتی/تدریسی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں تدریس سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ایچ ای سی کی جانب سے تجویز کردہ ایسے ملکوں ایک فہرست ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ سپروائیزرز کے ان ملکوں سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی جائزہ کاروں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں یا پھر انہی کے دوست ہوتے ہیں کیونکہ اکثر وہ ان کے ساتھ پی ایچ ڈی کر چکے ہوتے ہیں۔

زیادہ تر موقعوں پر، جیسا کہ میں نے ذاتی طور پر بھی دیکھا ہے کہ چند سرکاری یونیورسٹیوں میں آنے والے جائزہ کاروں کا تعلق افریقی اور خلیجی ملکوں سے ہوتا ہے، جو کہ سپروائیزرز کے طالب علم بھی رہ چکے ہوتے ہیں یا پھر وہ جائزہ کار بیرون ملک پڑھانے والے پاکستانی استاد ہی ہوتے ہیں۔ کئی جائزہ کاروں کا تعلق تو ایچ ای سی کے تجویز کردہ صنعتی/تدریسی طور پر ترقی یافتہ ممالک سے بھی نہیں ہوتا۔

مزید برآں، کئی موقعوں پر تو پی ایچ ڈی تھیسز کا جائزہ لینے کے لیے منتخب ہونے والے بین الاقوامی جائزہ کار دراصل کسی معیاری یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیوں کے بجائے انتظامی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔

اکثر اوقات غیر ملکی جائزہ کار یا ‘ماہر’ سیمینار سے ایک دن پہلے پہنچ جاتا ہے اور ریسرچ اسکالر کو اس جائزہ کار کے ساتھ بات چیت کرنے اور اس کی خوشامد کرنے کا پورا پورا موقعہ مل جاتا ہے۔ عام طور پر ’ماہر’ کی شان میں جتنی ممکن ہو سکے اتنی بہتر جگہ پر شاہانہ ظہرانوں اور عشائیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

اس طرح سیمینار سے قبل اسکالر اور جائزہ کار کے درمیان ملاقات ہوتی ہے جس سے اسکالر کا اعتماد بڑھ جاتا اور اگلی صبح سیمینار میں پوچھے جانے والے ممکنہ سوالات کا اشارہ بھی مل جاتا ہے۔ نتیجتاً، آخری سیمینار کسی تدریسی جائزے یا جانچ پڑتال سے زیادہ ایک برائے نام رسم بن جاتا ہے۔

مطلوبہ تعداد میں سیمیناروں میں پیش ہونے کے بعد، پی ایچ ڈی اسکالر اپنا ریسرچ تھیسز مزید جائزے کے لیے جمع کروانے کے لیے اہل ہو جاتا ہے، بشرطیکہ، اس کا ایک ریسرچ پیپر ایچ ای سی سے منظور شدہ جرنل میں شائع ہو۔

پڑھیے: کچھ ناکارہ پی ایچ ڈیز کے بارے میں

ایچ ای سی سے منظور شدہ جرنلز کو چار کیٹیگریوں، ڈبلیو، ایکس، زیڈ اور وائے میں تقسیم کیا جاتا ہے، ان میں سے ڈبلیو سب سے بہترین جبکہ وائے سب سے کم تر معیار کے جرنل تصور کیے جاتے ہیں۔ ڈبلیو کیٹیگری کے حامل جرنلز امپیکٹ فیکٹر جرنل ہوتے ہیں جبکہ ایکس کیٹیگری کے جرنلز، جو پاکستان میں ثانوی بہترین معیار کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ ایچ ای سی کی شرائط پر تو پورا اترتے ہیں لیکن وہ امپیکٹ فیکٹر کی حیثیت نہیں رکھتے۔

وائے کیٹیگری کے جرنلز بھی ایچ ای سی کی ایک شرط کے علاوہ باقی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے، کیونکہ اس کیٹیگری کی ریسرچ پر صنعتی/تدریسی طور پر ترقی یافتہ ملک کے کسی ماہر نے جائزہ نہیں لیا ہوتا۔ زیڈ کیٹیگیری جرنلز میں دو شرائط کی کمی ہوتی ہے، پہلی یہ کہ اس میں شامل ریسرچ پر بین الاقوامی معیار کا جائزہ نہیں لیا گیا ہوتا اور دوسری، ریسرچ کسی منظور شدہ ادارے کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر انڈیکس شدہ نہیں ہوتی۔

عام طور پر ریسرچ پبلیکیشن کی شرط کو اسی یونیورسٹی کے زیڈ یا وائے کیٹیگیری کے ریسرچ جرنل میں پیپر شائع کروا کر پورا کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے لیے یہ کام بہت ہی آسان ہے۔ وہ اس مرحلے سے جلدی جان چھڑانے کے لیے اصل پبلیکیشن کے بجائے ریسرچ پیپر کی اشاعت کے لیے منظوری کا لیٹر پیش کر سکتے ہیں، بلکہ زیادہ تر موقعوں پر ایسا ہوتا بھی ہے۔

پھر دو قومی اور دو بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے جائزہ کار تھیسز کا جائزہ لیتے ہیں۔ حالانکہ اس جائزے کا مقصد ریسرچ کے معیار کا جائزہ لینا ہوتا ہے لیکن اس مرحلے کو بھی پہلے کی طرح سنبھالا جاتا ہے اور سپروائیزرز کی مرضی کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا جاتا ہے۔

تھیسز کو ملک یا بیرونِ ملک کسی اجنبی جائزہ کاروں کو بھیجنے کے بجائے، پروفیسر کو ہی جائزہ کاروں کے نام تجویز کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ایسے میں پروفیسر کیا کرتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ ان کے ملکی و غیر ملکی سطح کے کئی جائزہ کاروں کے ساتھ دوستانہ اور مصالحتی مراسم ہوتے ہیں۔ وہ انہیں بریف کرتے ہیں اور مقررہ وقت میں ان سے مثبت رائے بھی حاصل کروالیتے ہیں۔

مثبت رائے کے حصول کے بعد، اور زیادہ تر موقعوں پر تو تعریفی جائزہ رپورٹ حاصل کرنے کے بعد، آخری زبانی امتحان یا وائیوا لیا جاتا ہے۔ مقامی یونیورسٹیوں سے دو جائزہ کاروں کو مدعو کیا جاتا ہے، جو وہی ہوتے ہیں جنہوں نےاکثر و بیشتر مقامی سطح پر تھیسز کا جائزہ لیا ہوتا ہے۔ یہ زبانی امتحان بھی اس مرحلے کی ایک برائے نام رسم کی طرح ہوتا ہے۔ اس مرحلے تک آتے آتے اسکالر اور جائزہ کاروں کی آپس میں کافی اچھی جان پہچان ہو جاتی ہے اور تھیسز جائزہ کاروں اور اسکالر کے لیے ایک حل شدہ پیپر سا بن چکا ہوتا ہے۔

آخری مرحلے میں بی اے ایس آر کی منظوری کے بعد ڈگری دی جاتی ہے۔ اس مرحلے کے لیے ایک اجلاس میں کمیٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا اسکالر ڈگری کا مستحق ہے یا نہیں۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک تھیسز جس کی پہلے سے 4 جائزہ کاروں نے سفارش کی ہوئی ہو اور امیدوار کا زبانی امتحان ہو چکا ہو، اب بی اے ایس آر کے پاس جائزہ لینے لائق باقی کون سی چیز رہ جاتی ہے۔

پڑھیے: تم مجھے ڈگری لے کر دکھاؤ!

ہمارے ملک کے تعلیمی شعبے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کے حل پہلے ہی بہت بار بتائے جا چکے ہیں میں انہیں یہاں نہیں دہراؤں گا۔ میں یہاں پر یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ تمام کے تمام پروفیسرز اور سپروائزرز اس قسم کے طریقے نہیں اپناتے۔ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں انتہائی مخلص، ایماندار اور پیشہ وارانہ اساتذہ کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ میرا مقصد غیر امتیازی طور پر ان کی برائی کرنا بالکل نہیں ہے۔

بلکہ، اس مضمون کے ذریعے میں دو باتوں پر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔ پہلی بات یہ کہ پاکستان میں مختلف سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کی فیکلٹیوں میں موجود منفی عناصر کی نشاندہی کی جائے۔ دوسری، میں ریسرچ سسٹم میں شامل ان خامیوں، خرابیوں اور کوتاہیوں کو متعلقہ حکام جس میں ایچ ای سی سمیت یونیورسٹی قیادت اور ٹیچر تنظیمیں شامل ہیں، کے زیر غور لانا چاہتا ہوں، جو کہ ریسرچ کے اصل مقصد کو ہی ختم کر دیتی ہیں۔

پاکستان کا سرکاری تعلیمی نظام ابتدائی طور پر موجودہ حالات کی طرح اس قدر مایوس کن نہیں تھا۔ کئی پاکستانیوں نے اردو اور سندھی میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی ملکی اور غیر ملکی سطح پر کامیابیاں حاصل کیں۔

آج ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے وہ کئی دہائیوں پر محیط حکومتی ناکامیوں کا ثمر ہے، اس کے ساتھ ایچ ای سی بھی زیادہ سے زیادہ ریسرچ پیپرز بنانے پر توجہ مرکوز کر کے یونیورسٹی ریسرچ سسٹم کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اگر مسائل کو حل نہ کیا گیا تو پاکستان میں یہ تنزلی جاری رہے گی اور پاکستان کا مستقبل تاریکی میں گم رہے گا۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوا۔

تبصرے (6) بند ہیں

Bilawal Sep 06, 2017 03:46pm
سر آپ نے بلکل درست بات کی ہے، آپ کی تحریر پر عملدرآمد ہو جائے اور اسکو پڑھ کر شاید ان اساتذہ کو غیرت نصیب ہو جو ریسرچ میں ریسرچر کی پھرپور مدد کرتے ہیں ملطب کے ان کی تھسز بنا کر دیتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اہل شاگردوں کا حق مارا جاتا ہے۔
Majid Ali Sep 06, 2017 08:44pm
Why it is problematic when someone doing PhD as part time or if you are without job but proceeding with PhD? I do not understand what is the issue....as far as you are completing the requirement this does not mater it is part time or full time. The short cuts you re defining are not related to part time these are related to the system.....
عامر شہزاد Sep 07, 2017 08:16am
السلام علیکم، سر مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ اس موضوع پر کام کر رہے ہیں. جزاک اللہ
abrar hussain Sep 07, 2017 01:55pm
I am happy that some people still exist whose are curious about quality of research being done in Pakistan. True fact is that Universities are making very less value addition. On other hand private universities are profit earning entities and run the university in same way
Hafez Sep 07, 2017 10:54pm
Professors and scholars are part of the society. No amount of rules and regulations can ensure quality. As a society, we are corrupt and dishonest.
Taimur khan Sep 07, 2017 11:46pm
meray sat ye ho raha ha. supervisor ka laiye agar koi gift na la jaw to bat be nahe karta simple kehta ha abe busy ho pher ajana. chunky ma topic selection k marhaly ma ho to jis topic k ma mera interest ha ma un k sat us pa bat karna jab b shoro karo wo apny research paper nikal laita ha k ye paro en ma sa topic banao... mery mutabiq research ma sab sa aham bat researcher ka interest ha to jin topics ma mera interest ha un ma mery supervisor ka interest nahe awr jin ma un ka interest ha un ma mera nahe.