روہنگیا شدت پسندوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پرعارضی جنگ بندی

11 ستمبر 2017
اقوام متحدہ کےمطابق 2 لاکھ 94 ہزار کےقریب مہاجرین بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں—فوٹو:اے ایف پی
اقوام متحدہ کےمطابق 2 لاکھ 94 ہزار کےقریب مہاجرین بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں—فوٹو:اے ایف پی

میانمار کے روہنگیا شدت پسندوں نے تنازع کے بعد بے گھر ہونے والے 3 لاکھ سے زائد مہاجرین اور دیگر متاثرین تک امداد پہنچانے کی غرض سے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ میانمار کی ریاست رخائن میں تنازع کے بعد بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد 2 لاکھ 94 ہزار کے قریب ہے جو 25 اگست کو رخائن میں شدت پسندوں کی جانب سے فورسز پر حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کےبعد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔

رخائن میں موجود ہزاروں افراد کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ غذا، پانی اور کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔

تازہ واقعے میں میانمار سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سرحد پر بچھائے گئے بارود سے ٹکرانے کے نتیجےمیں 3 روہنگیا مسلمان جاں بحق ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیں:روہنگیامسلمانوں کی بحالی کیلئےکروڑوں ڈالرکی ضرورت: اقوام متحدہ

خیال رہے کہ بدھ اکثریت کے حامل میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم نہیں کیا جارہا ہے اور انھیں بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب رخائن میں پیدا ہونے والے حالیہ تنازع کےبعد ریاست کے شمالی علاقوں سے 27 ہزار بدھ مت اور ہندو بھی ہجرت کرگئے ہیں۔

شدت پسندوں کی جانب سے ٹویٹرکے ذریعے پیغام میں کہا گیا ہے کہ 'اراکان روہنگیا سیلویشن آرمی (اے آر ایس اے) نے عسکری کارروائیوں کو عارضی طور پر روک دیا ہے'۔

ان کی جانب سے تمام امدادی تنظیموں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ 9 اکتوبر تک ایک ماہ کے دوران بحران کے تمام متاثرین تک مذہب اور نسل کی تفریق سےبالاتر ہوکر امداد پہنچائیں۔

یہ بھی پڑھیں:میانمار: ایک ہفتے میں ہلاک روہنگیا افراد کی تعداد 400 سے زائد

اے آر ایس اے نے میانمار پرلڑنےکےبجائے 'انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسی طرح کے جواب' کا مطالبہ کیا ہے۔

میانمار حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے لیکن ایک روز قبل حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ روہنگیا کے اکثریتی علاقوں میں تین امدادی کیمپ قائم کریں گے۔

خیال رہے کہ روہنگیا مہاجرین کی جانب سے قتل و غارت کا الزام میانمار کی فوج پر عائد کیا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں