لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں نویں جماعت میں پڑھنے والے 3 دوستوں کے ایک 'ایڈونچر' نے واشنگٹن میں موجود انٹرنیشنل پولیس آرگنائزیشن (انٹرپول) کو الرٹ کردیا، جنہوں نے پاکستان میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو آگاہ کیا کہ وہ لاہور میں ایک 'مغوی' لڑکے کی جان بچائیں۔

واقعے کا آغاز اُس وقت ہوا جب 14 سالہ سلیمان نے اپنے ایک دوست حسنین کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا ایپ اسنیپ چیٹ پر اپ لوڈ کی، جو انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا تھا کہ حسنین کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے ہیں، منہ پر ٹیپ لگا ہوا ہے اور وہ ایک کار کی ڈگی میں گٹھری کی صورت میں موجود ہے۔

انٹرپول واشنگٹن نے اسے اغواء کا کیس سمجھ کر پیر (16 اکتوبر) کی شام انٹرپول اسلام آباد نیشنل سینٹرل بیورو کو فوری ایکشن لینے کو کہا، جس نے معاملہ لاہور میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ڈپارٹمنٹ کو بھجوا دیا، تاکہ ممکنہ اغواء یا خودکشی کو روکا جاسکے۔

جس کے بعد سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر سید شاہد حسن کی سربراہی میں ایف آئی اے کی ایک ٹیم نے مذکورہ لڑکوں کی گلشن راوی میں موجودگی کا سراغ لگالیا۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عثمان نے ڈان کو بتایا، 'ہم نے نویں جماعت کے تینوں طالب علموں کو گلشن راوی میں ٹریس کیا اور معلوم ہوا کہ لڑکوں نے ایک خطرناک گیم کھیلتے ہوئے اپنے ایک دوست کو باندھ کر گاڑی کی ڈگی میں ڈالا، جہاں اس دوست کو اپنی طاقت کا ثبوت دیتے ہوئے خود کو کھول کر باہر آنا تھا، لیکن یہ گیم بلیو وہیل نہیں تھا'۔

مزید پڑھیں: خطرناک ویڈیو گیم ’بلیو وہیل‘ سے متعلق اہم حقائق

مذکورہ گیم کی تفصیلات بتاتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عثمان نے بتایا کہ سلیمان اور حمزہ نے ایک آن لائن گیم سے متاثر ہوکر حسنین کو اپنے آپ کو کھولنے اور گاڑی کی ڈگی میں سے باہر آنے کے لیے ڈھائی منٹ کا وقت دیا تھا، دونوں لڑکوں نے حسنین کو باندھ کر گاڑی میں ڈالنے جانے کی ویڈیو ریکارڈ کی اور اسے اسنیپ چیٹ پر اپ لوڈ کردیا، لیکن جب حسنین مقررہ وقت میں خود کو کھول کر باہر نہ آسکا، تو دونوں لڑکوں نے اسے باہر نکال لیا اور اس کی حالت بہتر ہے'۔

ایف آئی اے نے تینوں لڑکوں کو حراست میں لیا، لیکن ان کے اور ان کے والدین کے بیانات ریکارڈ کرکے ایف آئی آر رجسٹر کیے بغیر چھوڑ دیا۔

محمد عثمان نے بتایا، 'چونکہ کوئی جرم سرزد نہیں ہوا تھا، لہذا ہم نے لڑکوں اور ان کے والدین کو ایک کونسلنگ سیشن کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی'۔

سلیمان نے ایف آئی اے کو بتایا کہ وہ آپس میں بہت اچھے دوست ہیں اور بلیو وہیل سمیت سوشل میڈیا پر دستیاب مختلف گیمز سے متاثر تھے۔

سلیمان نے اپنے بیان میں بتایا، 'پیر کو حسنین اور حمزہ میرے گھر آئے اور ایک آن لائن گیم کھیلا، جس میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح گاڑی کی ڈگی میں موجود ایک بندھے ہوئے شخص نے خود کو ڈھائی منٹ کے اندر آزاد کروایا، میں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ یہ چیلنج کون قبول کرے گا اور حسنین نے حامی بھرلی، ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے اسے اسنیپ چیٹ پر اپ لوڈ کردیا جس کی قیمت ہمیں ایف آئی اے کی حراست کی صورت میں ادا کرنی پڑی'۔

یہ بھی پڑھیں: جہلم:'بلیو وہیل' گیم کھیلنے والی دوطالبات کالج سے خارج

ایف آئی اے پنجاب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور نے ڈان کو بتایا، 'اس ڈیجیٹل عہد میں والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے، اس کچی عمر میں بچوں کو موبائل فون رکھنے کی اجازت دینے سے انہیں سوشل میڈیا پر خطرناک رجحانات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے'۔

ان کا ماننا تھا کہ 'انٹرپول واشنگٹن کے ردعمل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سوشل میڈیا پر تمام قسم کی سرگرمیوں کی سختی سے مانیٹرنگ ہوتی ہے'۔

گذشتہ ماہ بھی جہلم میں 2 طالبات کو کالج سے اُس وقت نکال دیا گیا تھا، جب انہوں نے بلیو وہیل گیم چیلنج کھیلتے ہوئے ایک چھری کی مدد سے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔


یہ خبر 19 اکتوبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں