حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں اور کچھ میڈیا پرسنز نے حال ہی میں الزام لگایا ہے کہ ایک منتخب حکومت کو ہٹانے اور مارشل لاء کی راہ ہموار کرنے کے لیے ’1977 جیسی سازش‘ تیار کی جا رہی ہے۔

اِس سے اُن کی مراد وہ احتجاجی تحریک ہے جو اپریل 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف شروع کی گئی تھی، جو آخرکار جولائی 1977 کے مارشل لاء پر منتج ہوئی۔

نو جماعتی اتحاد پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی اِس تحریک پر زیادہ کچھ لکھا نہیں گیا ہے۔ 1968 میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف برپا کی گئی تحریک کے برعکس 1977 کی تحریک کے بارے میں تفصیلی تحقیق نہیں کی گئی ہے۔

اِس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی یا بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، مزدور یونینز اور طلباء تنظیموں کی جانب سے چلائی جانے والی 1968 کی تحریک نے آگے چل کر ملکی تاریخ میں پہلی بار بالغ حقِ رائے دہی کی بناء پر 1970 کے انتخابات کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر اِن تاریخی انتخابات کا ایک نتیجہ خانہ جنگی کے بعد مشرقی پاکستان کی تلخ علیحدگی کی صورت میں نکلا، جو دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش بن گیا تھا۔

1977 کی تحریک 1968 کے واقعات سے کافی مختلف تھی۔ اول الذکر تحریک کسی آمریت کے خلاف نہیں بلکہ ایک منتخب حکومت کے خلاف تھی۔ اِس کے علاوہ، اِس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء آیا، ایک معزول وزیرِاعظم کو پھانسی دی گئی اور ایک فوجی حکومت قائم ہوئی جو 11 سال تک باقی رہی۔

جنرل ضیاء الحق کی اِس حکومت کے سماجی و سیاسی اثرات ایسے تھے کہ پاکستانی ریاست اور سیاست اب تک اِن سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایل ڈی ہائیز اپنی کتاب ’دی اسلامک اسٹیٹ اِن پوسٹ ماڈرن ورلڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ضیاء کی آمریت نے ’پاکستان کی سیاسی اور سماجی ارتقاء کو روک دیا۔‘

تو کیا 1977 کی قومی اتحاد کی تحریک، جس کا اب چند تبصرہ نگار اور سیاست دان نام لے رہے ہیں، اِس سب سے مطابقت رکھتی ہے جو آج کل ایک اور منتخب حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ اُس کے خلاف ’ویسی ہی سازش‘ کی جا رہی ہے؟

پاکستان قومی اتحاد دسمبر 1976 میں اُس وقت قائم ہوا جب بھٹو حکومت نے اپنے طے شدہ وقت سے 10 ماہ قبل انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ اعلان کے مطابق انتخابات جنوری 1977 میں ہونے تھے۔ اپنی کتاب ’دی میراج آف پاور‘ میں بھٹو حکومت کے سینیئر وزیر اور پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک ڈاکٹر مبشر حسن لکھتے ہیں کہ بھٹو کو دوبارہ انتخابات جیتنے کا یقین تھا اور وہ پارلیمنٹ میں پہلے سے بھی زیادہ اکثریت چاہتے تھے تاکہ آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کے پارلیمانی نظامِ جمہوریت کو صدارتی نظام میں تبدیل کرسکیں۔

بھٹو حکومت کے ایک مشیر رفیع رضا اپنی کتاب ’زیڈ اے بھٹو اینڈ پاکستان 1977-1966‘ میں لکھتے ہیں کہ بھٹو پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل دیکھ کر حیران تھے کیوں کہ اُس وقت پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ اتحاد میں پیپلز پارٹی مخالف نو جماعتیں تھیں جن میں ملک کی تین بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان بھی شامل تھیں۔

بھلے ہی اتحاد میں بائیں بازو کی مشہور شخصیات ولی خان، بیگم نسیم ولی اور اصغر خان جیسے کٹر لبرل جمہوریت پسند بھی شامل تھے، مگر اپنے انتخابی نعرے ’نظامِ مصطفیٰ‘ کے ذریعے قومی اتحاد نے ملک میں ’اسلامی معیشت اور جمہوریت‘ لانے اور انتخابی مہم میں آگے جا کر شرعی قوانین کے نفاذ کا بھی وعدہ کیا۔

انتخابات سے صرف چند دن قبل بھٹو نے اشارتاً کہا کہ قومی اتحاد ’خون چوسنے والے صنعتکاروں‘ کی تخلیق تھا۔ ماہرِ سیاسی اقتصادیات ڈاکڑ ایس اکبر زیدی اپنی کتاب ’اشوز اِن پولیٹیکل اکنامی‘ میں لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں 1971 کی خانہ جنگی کے بعد کی اقتصادی صورتحال کی بہ نسبت بھٹو حکومت کچھ حد تک معیشت کو سہارا دینے میں کامیاب رہی تھی، بھلے ہی 1973 کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا اور ایوب حکومت کے دوران دولت بنانے والے صنعتکار اپنا پیسہ ملک سے باہر منتقل کر رہے تھے۔

مگر زیدی اتفاق کرتے ہیں کہ معیشت 1960 کی دہائی میں ایوب حکومت کے دوران زیادہ مضبوط تھی، لیکن اِس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ زیدی کے مطابق ایوب کی پالیسیوں نے خاندانی اجارہ داریوں کو جنم دیا تھا۔ مگر بہت سے ایسے بھی ماہرینِ اقتصادیات موجود ہیں جو بھٹو کی ’سوشلسٹ پالیسیوں‘ کو ملک کے معاشی انقلاب پر بُرے اثرات ڈالنے کا ملزم ٹھہراتے ہیں۔

آگے چلتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ مشرف دور کے اختتامی عرصے میں معیشت تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہوئی۔ زرداری حکومت (2013-2008) کے دوران جب ملک شدت پسند دہشتگردی، سول ملٹری رسہ کشی اور حکومت کی نااہلی میں گھرا ہوا تھا تو معیشت مزید گراوٹ کا شکار ہوئی۔ جب مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013 میں اقتدار حاصل کیا تھا، تب کے مقابلے میں اب معیشت نسبتاً سنبھلی ہے۔ اِس کی بڑی وجہ دہشتگردی کے خلاف 2014 سے وسیع پیمانے پر جاری آپریشن ہے۔ بالکل جس طرح بھٹو نے 1970 کی دہائی میں کیا تھا، نواز شریف کو بھی لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایک تباہ حال معیشت کو سہارا دینے میں مدد دی ہے۔

پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا سب سے جامع تجزیہ ڈاکٹر خالد بی سعید نے 1981 کی اپنی زبردست کتاب ’پاکستان: دی نیچر اینڈ ڈائریکشن آف چینج‘ میں کیا ہے۔ ڈاکٹر سعید لکھتے ہیں کہ جب قومی اتحاد نے 1977 کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک پُرتشدد احتجاجی تحریک شروع کی تو اُس کی صفوں میں بڑی تعداد شہری متوسط اور زیریں متوسط طبقے کے نوجوانوں، تاجروں اور دکانداروں پر مشتمل تھی۔ 1977 کی تحریک کے دوران بھٹو نے ناراض صنعتکاروں پر تحریک کی مالی معاونت کرنے اور فوج کے چند حلقوں پر بھی الزام عائد کیا تھا کیوں کہ کچھ افسران نے لاہور میں مشتعل افراد کے ہجوم کے خلاف ایکشن لینے سے انکار کر دیا تھا۔

جہاں قومی اتحاد نے بھٹو پر معیشت تباہ کرنے اور مخالفین کے خلاف آہنی ہاتھ کے استعمال کے الزامات لگائے تھے، وہاں مسلم لیگ (ن) پر بدعنوانی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ مگر دونوں ہی معاملات میں شہری متوسط اور زیریں متوسط طبقے کے نوجوان اہم تھے اور ہیں۔ حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر ’آئین کی اسلامی روح میں تبدیلی کی کوشش‘ کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران بھٹو کے عقیدے پر بھی سوالات اُٹھائے گئے تھے اور اُنہیں ’اسلام مخالف‘ اور ’شرابی‘ قرار دیا گیا۔

ڈاکٹر مبشر کے مطابق بھٹو نے شہری متوسط طبقے میں موجود اپنی حمایت کو گنوا دیا تھا، کیوں کہ وہ اُن کے معاشی اقدامات کی وجہ سے خود کو دیوار سے لگایا گیا محسوس کر رہے تھے۔ اِس کے برعکس وہ شہری مزدور طبقے اور دیہی کسان طبقے میں اپنی حمایت میں اضافہ کر رہے تھے۔ مسلم لیگ (ن) بھی اب یہی کرنا چاہ رہی ہے۔ ایسا اِس لیے نہیں ہے کہ پارٹی اپنا روایتی متوسط اور زیریں متوسط طبقے کا پنجابی ووٹ گنوا رہی ہے، بلکہ اِس لیے ہے کہ اِس ووٹ بینک کا ایک حصہ درمیانی دائیں بازو کی تنظیم پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور کچھ حد تک نئی انتہاپسند مذہبی تنظیموں کو جا رہا ہے۔

بھلے ہی 1970 کی دہائی کے وسط کے بعد بھٹو نے اپنا شہری ترقی پسند و لبرل ووٹ گنوایا تھا، مگر مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں پی پی پی کا اچھا خاصہ ترقی پسند و لبرل ووٹ اپنے نام کیا ہے۔

جیسا کہ اِس مختصر تجزیے سے محسوس ہوا ہوگا، 1977 کی تحریک اور آج کے واقعات میں کچھ چیزیں یکساں تو ہیں مگر جیسا کہ میرے ایک سندھی دوست نے حال ہی میں کہا:

’1977 میں یہ پنجاب اور کراچی کا متوسط اور زیریں متوسط طبقہ تھا جو ایک سندھی کے خلاف جدوجہد کر رہا تھا۔ مگر اِس بار [مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے تناظر میں] پنجاب کا متوسط اور زیریں متوسط طبقہ آپس میں ہی باہم دست و گریباں ہے۔‘

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 15 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں