انڈسٹریلائزیشن اور شہری منصوبہ بندی کے نتیجے میں بڑھنے والی فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودہ دھند (اسموگ) نے پاکستان کے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کچھ حصوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا جو صحت مند ماحول کی تباہی کا خطرہ ہے۔

حال ہی میں ان علاقوں میں پڑنے والی اسموگ کے نتیجے میں اسکولوں کے اوقات تبدیل ہوئے، پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں، سڑکوں پر دسیوں لوگ مختلف شہروں میں ٹریفک حادثات کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھے۔

گزشتہ برس پنجاب کے مختلف شہر بشمول لاہور، گجرانوالہ اور فیصل آباد موسم سرما کے دوران شدید اسموگ کی لپیٹ میں تھے ایسے وقت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس پریشانی سے نمٹنے کے لیے ایک ہنگامی منصوبہ پیش کرنے کے لیے کمیٹی قائم کی تھی۔

فضائی آلودگی عالمی سطح پر قبل از وقت اموات کا چوتھا سب سے زیادہ خطرناک عوامل ہے جبکہ اس سے نہ صرف معاشی ترقی کا پہیہ جام ہوجاتا ہے بلکہ اس سے غربت مزید بڑھ جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: اسموگ کیا ہے اور اس سے بچنا کیسے ممکن؟

ایک طبی جریدے دی لینسیٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2015 میں 3 لاکھ 11 ہزار 1 سو 89 پاکستان فضائی آلودگی کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سال پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کو اس صورتحال کا سامنا ہے جس پر شہریوں کا کہنا ہے کہ حد نگاہ صفر ہوجانے کی وجہ سے لوگ مشکل سے ہی شہر کی سڑکوں پر گاڑی چلانے کے قبل ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہوا میں موجود پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) 2.5 کے نام سے مشہور خطرناک ذرات اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ با آسانی پھیپھڑوں اور خون کی شریانوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔

اس سال 10 اکتوبر کو لاہور میں اسموگ کا آغاز ہوا اور تمام ہی اضلاع میں یہ پھیل گئی اور 20 اکتوبر تک صوبےبھر کے مختلف شہروں میں ہوا کا معیار انتہائی حد تک خراب ہو چکا تھا جبکہ 30 اکتوبر تک اس میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے بیشتر شہروں میں اسموگ سے زندگی مفلوج

لاہور میں فضائی آلودگی کی نگراں لیبارٹری نے 31 اکتوبر کو ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق فضا میں پی ایم 2.5 ذرات کا لیول 134 بتایا گیا جو اس وقت 288ug/m3 ہے جو حفاظتی سطح 35ug/m3 سے بہت زیادہ ہے۔

پنجاب کے محکمہ حفاظت ماحولیات (ای پی ڈی) کے ڈائریکٹر نسیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ پرانی گاڑیوں اور ان کا دھواں بھی ان مسائل میں اضافہ کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔

فضائی معیار اور جنگلات کی پیداوار

پنجاب کی نئی اسموگ پالیسی میں آنکھ میں چبھنے والے اور گلے کو جلادینے والے اس دھویں سے نمٹنے کے لیے جنگلات اگانے کے حوالے سے کم ہی توجہ دی گئی ہے۔

ڈائریکٹر نسیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ شہری علاقوں میں درخت لگانے سے کافی حد تک ہیٹ ویو سے نجات ملے گی جبکہ فضا میں مزید آکسیجن پیدا ہوگی جس سے بارش کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'اسموگ نومبر کے مہینے میں برقرار رہنے کا امکان'

جنوبی پنجاب فوریسٹ کمپنی (ایس پی ایف سی) کے سربراہ طاہر رشید کا کہنا ہے کہ جنگلات ہی فضائی آلودگی بشمول اسموگ سے لڑنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا اگر پاکستان کے شہری علاقوں میں درختوں کی ایک بہتر شرح موجود ہو تو اس سے کافی زیادہ ماحولیاتی اور معاشی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے لاہور اور اس کے مضافات میں میں چند ایک ہی جنگلات باقی رہ گئے ہیں۔

پنجاب حکومت نے جنگلات کی حفاظت کے لیے کمرشل جنگلات کی فروغ شروع کردی، جس میں بہاولپور، رحیم یار خان، راجن پور، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں 99 ہزار 77 ایکٹر زمین مختص کردی گئی۔

یہ زمین جنگلات کی پیداوار کے لیے سرمایہ کاروں کو نجی و سرکاری شراکت داری کے تحت دسمبر 2017 تک کامیاب بولی لگانے والوں کو دی جائیں گی جبکہ ذرعی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں صرف 1.9 فیصد جنگلات باقی رہ گئے ہیں تاہم اس منصوبے کی مدد سے ملک کے قدرتی جنگلات پر موجود دباؤ کم ہوجائے گا۔

طاہر رشید نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت جنوبی پنجاب میں آئندہ 15 برس کے دوران ایک کروڑ 30 لاکھ درخت لگائے جائیں گے جبکہ اسی طرح کے مزید منصوبے جس میں گھر کے بالائی حصوں میں شجر کاری اور شہری علاقوں میں شجرکاری شامل ہیں، متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اداریہ: ہندوستان سے کہتے ہیں کہ آئیے اسموگ کے مسئلے پر بات کریں

گرین پاکستان پروگرام کے پرجیکٹ ڈائریکٹر ابراہیم خان کہتے ہیں کہ قومی سطح پر شجرکاری کے لیے 10 کروڑ درخت مختص کیے گئے ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی ماحول دوست سرمایہ کاری

خیبر پختونخوا کے گرین گروتھ انیشیئےٹیو کے چیئرمین ملک امین اسلم خان کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی صرف ایک صوبے کے لیے مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک منتقل ہونے والے مسائل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسموگ نے تقریباً پورے ہی خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جبکہ اس کے سب سے زیادہ اثرات لاہور اور بھارت کے دارالحکومت دہلی میں دیکھنے میں آئے، اور یہ اسموگ ہی ہے جو پنجاب بھر میں پھیلتی ہوئی پشاور تک جا پہنچی۔

انہوں نے بھی شجر کاری کو فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے بہترین ذریعہ قرار دے دیا۔

مزید پڑھیں: 'اسموگ کی وجہ کارخانوں سے نکلتا دھواں'

ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے کے تحت 2 ہزار 500 ہیکٹرز پر نئے جنگلات بنائے جائیں گے جبکہ گزشتہ 3 سالوں کے دوران چندن غازی، ازاخیل، اور جروبہ میں جنگلات کی شجر کاری کی گئی اور ان میں زندہ رہ جانے والے درختوں کی شرح 85 فیصد رہی۔

اس شجر کاری منصوبے میں 9 ہزار ہیکٹرز پر پشاور میں جبکہ 8 ہزار 500 ہیکٹرز کی شجر کاری مردان شہر اور اس کے اطراف میں کی گئی۔

ایک سائنسی مطالعے کے مطابق شجر کاری ایم پی ذرات اور زمینی آلودگی کو 50 فیصد تک کم کر دیتی ہے، تاہم ملک امین اسلم خان کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ خیبرپختونخوا کے مستقبل میں فضائی آلودگی سے لڑنے کے میکینزم کے طور پر کام کرے گا۔

کیونکہ جنگلات نے انسان کی ہمیشہ مدد کی اور اسے زندگی میں چھت فراہم کی اور آرام پہنچایا، اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ موجودہ دور میں جب شہر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ہیں ایسے میں ایک مرتبہ پھر جنگلات ہی فضائی آلودگی سے لڑنے میں مدد دے رہے ہیں۔

اس مسئلے کو ایک مضبوط رہنمائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول کرنے سے ہی حکومت اس حوالے سے اقدامات کرنے کے قابل ہوگی جس کے لیے ایک ہنگامی قومی ایکشن پلان ترتیب دینا ہوگا اور نگرانی کے نظام کا نفاذ کرنا ہوگا۔

بدلتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں طویل مدتی حل کے لیے ایک مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں پائیدار ذرات، ایندھن کے معیار کی بہتری، فیکٹریوں کے دھوئیں کے اخراج کے مؤثر نظام، شمسی اور دیگر قابلِ تجدید ذرائع توانائی سے تابکاری کو کم کرنا اور طرزِ زندگی کے نمونوں میں بہتری وہ عوامل ہیں جو انسان کو دوبارہ ایک صحت مند ماحول میں سانس لینے کے حوالے سے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔


یہ خبر 15 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں