اسلام آباد: حکومتی مراسلے کے جواب میں پاک فوج کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے روایتی طور پر فوج استعمال نہیں کی جاتی لیکن فوج پھر بھی تیار ہے مگرچند امور غور طلب ہیں۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جوابی مراسلے کے مطابق فوج کا کہنا ہے کہ عدلیہ نے آتشیں اسلحے کے بغیر کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔

حکومتی مراسلے کا عکس — فوٹو/ ڈان نیوز
حکومتی مراسلے کا عکس — فوٹو/ ڈان نیوز

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو دھرنے کے پُرامن حل کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد قومی مفاد اور یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر جاری دھرنے سے نمٹنے اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے فوج کی طلبی سے متعلق جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر فوج کو آئین کے آرٹیکل 245 کے سیکشن 4 اور 5 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت طلب کیا گیا ہے، جو امن وامان کے قیام کے لیے سول انتظامیہ کی مدد کرے گی۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ فوج کی تعداد کا تعین ٹرپل ون بریگیڈ خود کرے گی اور ضرورت کے مطابق فوج تعینات کرے گی۔

آرمی چیف اور وزیر اعظم کی ملاقات کا امکان

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنا متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا دورہ مختصر کر کے واپس راولپنڈی پہنچ گئے۔

ذرائع کے مطابق پاک فوج کے سربراہ یو اے ای کے دورے پر تھے تاہم اسلام آباد میں مذہبی جماعت کے مظاہرین اور پولیس کے دمیان جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد دورہ مختصر کرکے وطن واپس پہنچے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان 26 نومبر کی شام ملاقات متوقع ہے جس میں اسلام آباد کے دھرنے سمیت ملک میں جاری امن و امان کی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔

فیض آباد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کا دھرنا گذشتہ 18 روز سے جاری تھا، دھرنا ختم کروانے کے عدالتی حکم پر جب انتظامیہ نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا، تو مشتعل افراد نے ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے شروع کر دیئے۔

فیض آباد میں 7 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد اسے معطل کر دیا جبکہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مظاہرین کا تشدد، مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی زخمی

اہم حکومتی شخصیات کے گھروں پر مظاہرین کے حملے

سیالکوٹ کے قریب پسرور میں واقع وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کے گھر پر شام 4 بجے کے قریب تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکنان نے حملہ کیا۔

مشتعل مظاہرین نے وزیر قانون زاہد حامد کے گھر پر پتھراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کی جبکہ پتھراؤ سے سیکیورٹی پر مامور اہلکار بھی زخمی ہوئے، جس کے بعد انہوں نے مزید نفری طلب کرلی۔

شیخوپورہ میں مظاہرین کے تشدد سے حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف اور ان کے سیکیورٹی انچارج سمیت 3 افراد زخمی ہوئے۔

راولپنڈی میں مشتعل مظاہرین نے سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان کے گھر کا گیٹ توڑ دیا اور باغیچہ کو آگ لگادی۔

مزید پڑھیں: حکومت اور مظاہرین تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں: آرمی چیف

چوہدری نثار کے گھر پر تعینات گارڈز نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لیے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق ہوگیا اور مظاہرین منتشر ہوگئے۔

نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر پابندی عائد

دوسری جانب پیمرا نے مظاہروں کی براہِ راست کوریج پر بھی پابندی عائد کرتے ہوئے تمام نیوز چینلز کی نشریات بند کریں۔

حکومت نے اس پابندی کے ساتھ ساتھ سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس، جس میں فیس بک اور ٹوئٹر شامل ہیں، پر پابندی عائد کی تھی اس کے علاوہ تمام نیوز چینلز کی یوٹیوب پر لائیو اسٹریمنگ بھی بند ہے۔

خیال رہے کہ پہلے ڈان نیوز کی لائیو اسٹریمنگ کو بلاک کیا گیا بعدِ ازاں ڈان نیوز کی ویب سائٹ dawnnews.tv کو بھی مکمل طور پر بند کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں