آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کراچی کی عالمی اردو کانفرنس میں بھلا مولانا ابوالکلام آزاد کے یاد آنے کا کیا سوال، جب کہ ان کے نام تو کوئی نشست بھی نہ تھی؟

اس یاد کا سبب کچھ اور رہا۔

ہوا یوں کہ ابتدائی کلمات کے لیے صدر آرٹس کونسل احمد شاہ مائیک پر تھے اور وہ ہمیشہ کی طرح فی البدیہہ بولتے ہی چلے جا رہے تھے۔ ظاہر ہے آرٹس کونسل میں اِن کے پینل نے مسلسل کام یابی کے ساتھ ’عالمی اردو کانفرنس‘ کو بھی دوام بخشا۔ اس پر تنقید جتنی بھی کی جائے، لیکن بہرحال کانفرنس پہلے ہے، نکتہ چینی اس کے بعد ہے۔

وہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں روانی سے بولتے ہوئے سندھ اسمبلی کی پاکستان کے حق میں منظور ہونے والی قرار داد کی طرف آئے اور سندھ اسمبلی کو خراج تحسین پیش کیا، ساتھ ہی انہوں نے ’سندھ‘ کو بھی خوب خراجِ تحسین پیش کیا، کہ جس نے 1947ء میں کس قدر کھلے دامن کے ساتھ ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی، پھر اس کے بعد اندرونِ ملک سے آنے والوں کو بھی سمیٹا۔ جی بالکل، اس پر بھلا کس کو اختلاف ہوسکتا ہے، کہ یہ تو تاریخی حقائق ہیں۔

مگر کیا یہ پورا سچ ہے؟

پڑھیے: عالمی اردو کانفرنس اور ’رقص میں ہے سارا جہاں‘

کیا ہم اس باب میں قیامِ پاکستان کے لیے مختص 30 مخصوص مسلمان نشستوں میں سے اُن 17 نشستوں کو اتنی آسانی سے فراموش کرسکتے ہیں، جو کبھی اس نئے ملک کا حصہ ہی نہ بن سکیں؟ وہ 56 فیصد نشستیں جن کے اکثر باسی نئے ملک کے ممکنہ جغرافیے سے بھی واقف نہ تھے، اور انہوں نے اپنے لیے کچھ سوچے بغیر مسلم لیگ کو ووٹ دیا کہ ہم نہیں تو دوسرے ہی سہی؟

قراردادِ لاہور اور سندھ اسمبلی کی قرارداد اپنی جگہ قابلِ حوالہ ہیں مگر یہ 56 فیصد ووٹ تو وہ تھے، جس کے بغیر یہ قراردادیں صرف قراردادیں ہی رہ جاتیں، محض 70 برس بعد کیا اتنی بڑی اور اہم حقیقت پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے؟

کیا ہم 1947ء کا تذکرہ کرتے ہوئے حالات کے بھینٹ چڑھنے والے شہداء کے لیے ایک لفظ بھی نہ کہیں گے؟ کیا اُن معصوم فرشتوں کا ذرا سا بھی تذکرہ نہ ہوگا، جن کی چیخیں، اُن کے منہ پر جمے ہوئے ماؤں کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت سے نکل کر بلوائیوں کے کانوں تک جا پہنچیں اور پھر اُن کا مقدر نیزے پر بلند ہونا رہ گیا؟ کوئی یاد بھی نہ رکھے گا اُن نومولود بچوں کو جنہیں دنیا میں پہلی سانس لینے سے پہلے فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا؟

کیا ایسے بے نام خواتین، بوڑھے، جوان اور بچوں کو بھلا دیں گے جو لاہور پلیٹ فارم پر پہنچے تو اپنی پوری ریل کے مسافروں سمیت شہید ہوچکے تھے اور بچنے والے واحد زندہ مسافر ریل کے ڈرائیور تھے جو اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا۔ کیا لاہور کے پلیٹ فارم کو سرخ کر دینے والے اُن ہزاروں مسافروں کے گُم نام خون کو اتنی آسانی سے بھلایا جاسکتا ہے؟ کہ عالم یہ تھا کہ پلیٹ فارم کو ہر ٹرین کے آنے پر یوں دھویا جاتا تھا، جیسے وہاں بکرے ذبح کیے گئے ہوں!

پڑھیے: عالمی اردو کانفرنس کو 10 سال مکمل

کیا تعمیرِ ملک میں اُن 56 فیصد علاقوں سے گھر بار چھوڑ کر اس مملکت کی طرف ہجرت کرنے والوں کو سرسری طور پر بھی یاد نہ کرنا انصاف ہے؟ وہ بھی ایک ایسے موقعے پر جب ہجرت کرنے والوں کی اولادیں ہی سامنے بیٹھی ہوں؟ کیا صدیوں کے مسکن کو یوں چھوڑ کر بے سروسامان ہوکر نکلنا کسی قربانی میں شمار نہیں کیا جائے گا؟

کیا مسلم شناخت کے نام پر 1965ء میں تن تنہا اِس مملکت کو عازم ہونے والے افتخار عارف ایسوں کو بھی اتنی آسانی سے فراموش کردیا جائے گا جنہیں اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر اس ملک کا شہری تسلیم کیا گیا کہ تب ملک کو آگے بڑھنے کے لیے قابل لوگوں کی ضرورت تھی؟

کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے، سندھ کی متروکہ املاک اور زمینیں ہندوؤں کے گروی رکھنے کا بھی تذکرہ نہ کروں گا، کہ اب ایسی تلخی اچھی بات نہیں۔ احمد شاہ بے تکان بول رہے تھے اور میں سب سے آخری نشست پر دم بخود بیٹھا تھا، مجھے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد یاد آنے لگے، جن کو متحد ہندوستان کے آخری چناؤ میں پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے زبردست شکست دی۔

اُنہیں کسی ایک نشست پر بھی پذیرائی نہ مل سکی۔ پھر انتخابی نتائج کے مطابق بٹوارہ ہوگیا، مگر ابوالکلام آزاد نے ہمت نہ ہاری اور گھر بار چھوڑ کر نکلنے والے ستم رسیدہ مسلمانوں کو روکنے کے لیے صدائیں دیتے رہ گئے، ارے دیکھو تو، کہاں جا رہے ہو، کیوں جارہے ہو؟ یہاں چپّے چپّے پر تمہارے بزرگوں کے نقش پا ہیں، یہاں کتنی ہی عالی شان عمارتیں تمہاری عظمت کی خبر دے رہی ہیں، ٹھہر جاؤ اور اپنی اس تاریخ کے امین بن کر رہو، کہیں تم وہاں بن بلائے مہمان نہ بن جاؤ، دیکھو خیال کرو کہیں وہاں تم اجنبی نہ بن جاؤ۔

مگر حالات کا جبر کہ فتح اُس بار بھی ابوالکلام آزاد سے روٹھی رہی۔ چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود مسلمانوں کی یہاں ہجرت نہ رک سکی اور 70 سال بعد میری آنکھوں سے یہ باتیں رنج و الم کے اشک بن کر بہتی رہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (7) بند ہیں

Mudassir Iqbal umair Dec 30, 2017 04:12pm
مستقیم صاحب اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہماری یہ آزاد سانسیں انھی بھلادینے والوں کی مرہون منت ہیں -بہت اعلی تحریر پہ سلام قبول فرمائیں-
nasim zahoor Dec 31, 2017 02:17am
جناب پہلے اپنی شناخت بتائیے پھر کوئی اور بات کریں۔قوموں کی تقدیروں میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔دیکھ لیں آج مسلمانوں کا بھارت میں کیا حال ہے وہ گائے تک نہیں کھا سکتے،ہم پاکستان میں ہی بھلے۔آزاد ہمارے کوئی نہیں لگتے وہ اداکار عامر خان کے دادا ہیں۔
Inam Ur Rahman Dec 31, 2017 08:15am
Mr. writer doesn't want to introduce him self by his name and he is weeping with tears for past. Please accept by heart your present Pakistan and work for Pakistan being a pakistani. I am a US citizen but please say with me Pakistan Zindabad.
Msnsoor Dec 31, 2017 02:43pm
Very well
MAnsoor Dec 31, 2017 02:45pm
I fully endorse this blog
inqilab patel Jan 03, 2018 08:35pm
دل چھوُ لینے والی تحریر۔ خُدا کر زورِ قلم اور زیادہ!
navedyasir Jan 04, 2018 06:52pm
ان عظیم فرزندان سندھ (جی ایم سید، پیر الاھی بخش، میران محمد شاہ، بندہ علی خان،مخدوم محمد زمان طالب المولا۔۔۔۔) احسانات سرآنکھوں پر،مگر آج ان کے وارثوں نے اپنے بڑوں کےکیے ہوے وعدوں اورمھما ن نوازی کو بھلاکر عصبیت اور ا انصافی کی چادر اوڑھ لی ھے۔ یہ ھی وجہ ھے کے آج وطنِ عزیز کے لیے بے شمارقربانیاں دےکر(اپنے خونی رشتے، اپنی زمین، اپناگھربار، اپنے بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر۔۔۔) ہجرت کرکےآنے والوں کو ابوالکلام آزاد کی بات نا ماننے کاشدت سے احساس ہوتا ہے۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہےکہ آج ابوالکلام آزاد کی ہربات لفظ بہ لفظ صحیح ثابت ہورھی یے۔