سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نجی کالجز کے معیار اور سرکاری ہسپتالوں کی ابتر صورتحال کے معاملے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے 5 رکنی انسپکشن ٹیم تشکیل دے دی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ایڈمیشن منسوخ نہیں کر رہے بلکہ ہم اس کا معیار طے کریں گے اور اس وقت تک پی ایم ڈی سی مزید کسی کالج کو رجسٹر نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پورے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں اور نجی کالجز کو ایک فارم دے رہے ہیں جسے بھر کر انہیں عدالت میں جمع کرانا لازمی ہوگا۔

انہوں نے سرکاری ہسپتالوں کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ (ایم ایس) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھی ایک فارم دے رہے ہیں، مکمل تفصیلات جمع کرائیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سیکڑیٹری صحت فضل اللہ پیچوہو سے استفسار کیا کہ بتائیں قریب ترین نجی میڈیکل کالج اور اسپتال کون سا ہے آج ہم کسی ایک نجی میڈیکل کالج کا دورہ کریں گے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تحلیل کردی

انہوں نے نجی کالجز کے مالکان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آپ التجا سمجھیں، حکم سمجھیں، بڑے بھائی کی بات سمجھیں یا حکم لیکن 15 دن کے اندر اندر معاملات ٹھیک کرلیں ورنہ انسپکشن ٹیم جائے گی پھر کوئی رعایت نہیں ملے گی۔

سماعت کے دوران عدالت نے 5 رکنی انسپکشن ٹیم تشکیل دی جس میں آغا خان، ڈاؤ یونیورسٹی، جناح میڈیکل کالجز کے وائس چانسلرز کے علاوہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی اور شہاب اوستو شامل ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انسپکشن ٹیم پیر کو نجی میڈیکل کالجز کا دورہ کرے گی اور جو نجی کالج، ہسپتال کے معیار پر پورا نہیں اترے گا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔

چیف جسٹس نے سرکاری ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس سے بھی حلف نامے طلب کیے اور ان سے سوال کیا کہ کتنے بستر ہیں، کون کون سی مشینیں ہیں یا نہیں ہیں اور ادویات کی کیا پوزیشن ہے؟

انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالجز میں داخلوں کا سلسلہ نہیں روک رہے بس ان داخلوں کو عدالتی فیصلے سے مشروط کیا ہے۔

عدالت نے نجی میڈیکل کالجز کو شرائط پر عمل درآمد کے لیے پندرہ دن کی مہلت دی اور اس کے علاوہ نجی میڈیکل کالجز کو 6 لاکھ 45 ہزار روپے سے ذائد وصول کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس دن ذمہ داری پوری نہ کرسکے گھر چلے جائیں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق صوبائی وزیر اطلاعات ڈاکٹر عاصم حسین سے استفسار کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ضمانت پر ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ جی سر میں ضمانت پر ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ایم ڈی سی کیس: ’پاکستان کو 5 لاکھ عطائی نہیں ڈاکٹر درکار‘

چیف جسٹس نے ڈاکٹر عاصم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو بلکل ٹھیک ہیں بلکہ صحت مند بھی ہیں کیوں نہ آپ کی ضمانت پر ازخود نوٹس لیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گے تو آپ کی ضمانت کو ہاتھ نہیں لگائیں گے جس پر ڈاکٹر عاصم نے کہا ’میں عدالت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے ہی یہاں آیا ہوں۔‘

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے آبدیدہ ہوکر ریمارکس دیے کہ میں اکیلے مزار قائد پر بغیر پروٹوکول کے گیا اور وہاں فاتحہ خوانی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بے وطن ہوتے ہیں ان کو وطن کی بہت قدر ہوتی ہے جبکہ جن کو وطن مل جائے اور خراب حرکتیں کریں ان سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں ہوتا۔

عدالت کے باہر ڈاکٹر عاصم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نئے داخلوں پر پابندی کے فیصلے کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔

مزید پڑھیں: نجی میڈیکل کالج کیس: ڈاکٹر عاصم کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے میڈیکل کے شعبے میں 10 ہزار فیکلٹی کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت ہمارے پاس 6 ہزار فیکلٹی بھی موجود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوامی اور نجی میڈیکل کالجز کی سختی سے مانیٹرنگ ہونی چاہیے اور 15 فیصد نشستیں غریب عوام کے بچوں کے لئے ہونی چاہیے جن کی فیسیں حکومت ادا کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت چاہے تو 10 میڈیکل کالج راتوں رات کھول سکتی ہے جس کا براہ راست فائدہ غریب کے بچوں کو ہوگا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ( پی ایم ڈی سی) کو تحلیل کرتے ہوئے عبوری کمیٹی کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

اپنے حکم میں چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اس کمیٹی کو نجی میڈیکل کالجوں کی انسپکشن کا اختیار ہوگا جبکہ اس تمام عمل کی نگرانی وہ خود کریں گے تاہم اس کیس سے متعلق تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

اس سے قبل 11 جنوری کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ عطیات لینے پر ہم اپنے حکم کے ذریعے پابندی لگائیں گے اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو ہم خود دیکھیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں