عوام کے منتخب ایوانوں میں تلخ کلامی، ہاتھا پائی اور گالم گلوچ کوئی نئی بات نہیں۔ دنیا بھر میں عوام کے منتخب کردہ نمائندے اکثر اوقات دست و گریبان ہوجاتے ہیں، تُو تُو، میں میں سے شروع ہونے والی تکرار چاکِ گریبان تک جا پہنچتی ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کی تاریخ بھی ایسے واقعات سے خالی نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں (ن) لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کو ہی لیجیے، 35 پنکچر کے الزامات کے ساتھ نوک جھونک شروع ہوئی اور پھر یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے میاں نواز شریف کی نااہلی تک پہنچا، لیکن اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی دونوں جماعتوں کی لڑائی کم ہونے کے باوجود ذاتی دشمنی کی حد تک جا پہنچی ہے۔

ماضی میں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے ساتھ قومی اسمبلی میں جو کچھ کیا کرتی تھیں، آج کے زمانے میں وہی کچھ تحریک انصاف کررہی ہے۔

ماضی بعید کے جھروکوں میں کیوں جھانکیں، گزشتہ اور حالیہ قومی اسمبلیوں کی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو ارکانِ پارلیمنٹ کے پارلیمانی آداب کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بس اِدھر تلخ کلامی شروع ہوئی اور اُدھر سے اندر کا ٹین ایجر جاگ اٹھا اور پھر جو تماشا شروع ہوتا ہے اس سے تو ہم اور ہماری ٹی وی اسکرین بخوبی واقف ہیں۔

چند دن پہلے لاہور میں علامہ طاہرالقادری کے اسٹیج سے پارلیمنٹ پر جو تبرہ بازی ہوئی اس کے بعد ایک نئے جھگڑے نے جنم لیا ہے۔

وہ شیخ رشید، جنہیں عمران خان کبھی اپنا نوکر رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، وہی عمران خان آج کل ان سے اتنے متاثر ہیں کہ کبھی وہ انہیں اپنی جماعت کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نامزد کرتے ہیں اور کبھی اُن کی تقلید میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہیں۔

لاہور مال روڈ پر پاکستان کی پارلیمنٹ پر لعن طعن کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارلیمنٹ کے خلاف یہ جواز بنا کر مہم شروع کردی ہے کہ جو پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے گئے شخص کے لیے اہلیت کا قانون منظور کرے تو ایسی پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت!

پڑھیے: ہمارے اراکینِ اسمبلی کو اسمبلی میں آنا پسند کیوں نہیں؟

اس رویے کے خلاف ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یک آواز ہوگئی ہیں اور سب نے عمران خان اور شیخ رشید کو بھرپور جواب دیا اور لاہور جلسے کے دوسرے روز قومی اسمبلی نے اس سلسلے میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی۔

یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اپنے ہی 2 ارکان، یعنی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے علاوہ کسی دوسرے نظامِ حکومت کی گنجائش نہیں۔ قرارداد کی منظوری کے بعد پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی نے ایوان کے اندر اور باہر شدید احتجاج کرتے ہوئے لفظ ’لعنت‘ کا خوب استعمال کیا۔

قومی اسمبلی میں ارکان کے درمیان جھگڑوں کے علاوہ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی الفاظ کا تنازع بھی زیرِ بحث رہا ہے۔ مگر اس حوالے سے کبھی بھی قومی اسمبلی نے کوئی ایسی ڈکشنری مرتب کرنے کی زحمت نہیں کی جس میں پتہ چل سکے کہ کون سا لفظ پارلیمانی ہے اور کون سا غیر پارلیمانی۔

قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ صاحب اکثر اپنی تقاریر میں سیاسی اور ملکی حالات کا موازنہ لطیفوں اور محاوروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ان کے اکثر و بیشتر لطیفے اور محاورے سندھی زبان میں ہوتے ہیں، جو سندھی ارکانِ اسمبلی کے علاوہ دیگر ارکان کو کم ہی سمجھ آتے ہیں۔ اِسی ایوان میں مخدوم امین فہیم اور سید خورشید شاہ نے دو مختلف موقعوں پر ’جہان خان‘ کا ذکر کیا تھا، لیکن وہ قصہ سندھی زبان میں ہونے کی وجہ سے باقی ارکان کی سمجھ میں نہیں آیا جس وجہ سے اُس واقع کو حذف نہیں کیا گیا اور وہ قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ رہا۔ یہ جہان خان کون ہیں؟ اِس بارے میں سندھی ہی بہتر جانتے ہیں، ہاں لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ اردو زبان میں سنایا جاتا تو کچھ دیر کے لیے بھی ریکارڈ کا حصہ نہیں رہ سکتا تھا۔

اسی طرح ایک دن خورشید شاہ نے ایوان میں اپنی تقریر کے دوران ایک کفن چور کی اپنے بیٹے کو کی گئی وصیت کے حوالے سے لطیفہ سنایا، جس میں کفن چور نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ ’بیٹا ایسا کام کرنا کہ لوگ مجھے بھلا آدمی کہیں‘ کفن چور کے مرنے کے بعد بیٹے نے اپنے باپ کا نام کیسے روشن کیا یہ تو آپ کسی سے پوچھ لیں لیکن جب شاہ صاحب نے اس کے بیٹے کی جانب سے ڈنڈے کے استعمال کا ذکر کیا تو اسپیکر صاحب نے فوراً کہا کہ وہ ڈنڈے کا لفظ حذف کرتے ہیں۔ خورشید شاہ صاحب بضد تھے کہ ڈنڈا پارلیمانی لفظ ہے اس لیے حذف نہیں ہوسکتا، لیکن ڈنڈے کو حذف کرنے کے باوجود شاہ صاحب نے وہ لطیفہ پورا ہی سنادیا!

جون 2016ء میں خواجہ آصف کی جانب سے پی ٹی آئی رکن ڈاکٹر شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے پر بھی بہت شورشرابا ہوا، لیکن چونکہ وہ جملہ وزیر صاحب کی زبان سے نکلا تھا لہٰذا سخت ہونے کے باوجود وہ جملہ اسی دن حذف نہ ہوسکا۔ قصہ یہ تھا کہ خواجہ آصف جو ان دنوں وزیر پانی و بجلی تھے لوڈ شیڈنگ کے بارے میں ایوان کو بریفنگ دے رہے تھے۔ ان کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی کے ارکان اور خصوصاً ڈاکٹر شیریں مزاری بولنے لگیں تو ایک موقع پر خواجہ آصف نے پنجابی میں کہا کہ ’اس ٹریکٹر ٹرالی کو چپ کراؤ‘ پنجابی محاورے کے مطابق اس جملے کی بہت ہی سنگینی تھی، لیکن پی ٹی آئی اور (ن) لیگ دشمنی کے نتیجے میں ایک خاتون رُکن کی بے عزتی وفاقی وزیر کو ہضم ہوگئی۔

پڑھیے: خواجہ آصف صاحب، صنفی تعصب معمولی بد تمیزی نہیں

اسی طرح خواجہ آصف کے ایک اور جملے ’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘ نے بھی ملک گیر شہرت حاصل کی۔ بعد ازاں میاں نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاسی رہنما اپنے سیاسی مخالفین کو للکارتے وقت یہی جملہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے یہ جملہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس وقت کہا تھا جب 6 ماہ بعد پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لے کر اسمبلی اجلاس میں شرکت کی تھی۔ اُس اجلاس میں عمران خان بھی موجود تھے اور بڑے صبر کے ساتھ وہ خواجہ آصف کے جملے سن رہے تھے۔

گزشتہ برس جنوری کے آخری ہفتے میں قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اور (ن) لیگ کے ارکان کے درمیان ہاتھاپائی ہوئی، گریبان چاک ہوئے، تھپڑیں رسید کی گئیں، دشنام طرازی ہوئی اور لاتوں اور گھونسوں کا خوب استعمال ہوا۔ اس سے قبل ایسے مناظر پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری سال میں بجٹ اجلاس کے دوران بھی دیکھنے کو ملے تھے۔

اُن دنوں (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی نے بھی دل کھول کر جھگڑا کیا تھا، وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ جب بجٹ تقریر کررہے تھے تو (ن) لیگ کے ارکان نے ان کی نشست کا گھیراؤ کرنا شروع کیا، یہ دیکھ کر پیپلزپارٹی کے ارکان نے بھی اپنے وزیر کی حفاظت کے لیے حصار باندھ لیا۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے جاوید اقبال وڑائچ نے (ن) لیگ کے شکیل اعوان کو تھپڑ مارا، یوں جھگڑا شروع ہوگیا اور پھر گھونسے تھے، لاتیں تھیں اور گالیاں تھیں۔

کچھ عرصے قبل ایک جھگڑا پارلیمنٹ کی عمارت کے گیٹ نمبر ایک پر بھی اُس وقت ہوا، جب (ن) لیگ کے میاں جاوید لطیف نے پی ٹی آئی کے جذباتی رکن مراد سعید کو قریب جاکر عمران خان کو ’غدار‘ کہا اور معاملہ لاتوں گھونسوں اور گالیوں تک جا پہنچا۔ کچھ دن بعد فاٹا انضمام تحریک کے روح رواں حاجی شاہ جی گل آفریدی نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ معاملہ رفع دفع ہوگیا ہے، جس پر تمام ارکان نے حاجی شاہ جی گل آفریدی کو مبارک باد دی۔

موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایک بار پھر لاتوں گھونسوں کا موسم لوٹنے کو ہے، پی ٹی آئی ارکان کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ اسمبلی کے باقی چند ماہ کی مدت لڑائی جھگڑوں میں گزارنا چاہتے ہیں۔ لاہور میں پارلیمنٹ پر تبروں کے بعد جب اگلے روز خواجہ آصف نے جذباتی تقریر کی تو اس دن بھی انہوں نے عمران خان کو خوب لتاڑا۔ ’ڈنڈا‘ جو غیر پارلیمانی لفظ تھا، عمران خان کے لیے تو اس سے بھی سخت جملے کہے گئے مگر اس بار عمران خان کا دفاع کرنے کے لیے ان کے اپنے ارکان بھی آگے نہیں آئے۔

پڑھیے: یک نا شُد تین شُد مگر ختم شُد؟

منتخب ایوانوں میں لڑائی جھگڑے نئی بات نہیں اور شاید ہی کوئی اسمبلی تلخ تجربوں کے بغیر اپنی مدت پوری کرتی ہو، بلکہ اب تو ڈر ہے کہ آگے چل کر کہیں کوئی سیاسی شخصیت یہ نہ کہہ بیٹھے کہ بھئی ایوان میں لاتوں اور گھونسوں کا استعمال بھی جمہوریت کا حُسن ہے۔ لیکن ان ساری باتوں سے قطع نظر ہمیں اس بات کو سوچنا ہوگا کہ منتخب ایوان پر لعنت بھیج کر جب ہم اپنی شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں تو اپنی نئی نسل کو اِس طریقے سے کیا پیغام جائے گا؟ ٹھیک ہے یہاں اچھے بُرے لوگ آسکتے ہیں اور ہمیں اُن پر تنقید کرنے کا حق ہے مگر پارلیمنٹ کو لعنت دینا شاید یہ اچھا عمل نہیں ہے، کیونکہ یہی تو وہ پارلیمنٹ ہے جس نے ملک کا آئین بنایا اور یہی پارلیمنٹ تو تمام اداروں کی ماں ہے۔

پاکستانی عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اس ایوان میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ حکومت بناکر ان کی اور ان کے ملک کی خدمت کریں۔ رواں برس ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، اور عمران خان کو تو سب سے زیادہ اُمید ہے کہ وہ اس انتخابات کے نتیجے میں ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے، لیکن اُنہیں یاد رکھا چاہیے کہ وزیراعظم بننے کے لیے اُنہیں اسی پارلیمنٹ سے رجوع کرنا ہوگا، لہٰذا اُنہیں کوشش کرنی چاہیے کہ اگلی مرتبہ جوش خطابت میں اس قدر آگے بڑھنے کے بجائے پارلیمنٹ کے تقدس کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں