اسلام آباد: وفاقی آڈیٹرز نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ٹیکنالوجی (این آئی ایس ٹی ای) میں یوٹیلٹی چارجز سمیت تعلیمی عمارت کی لیزنگ میں بڑی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے۔

واضح رہے کہ این آئی ایس ٹی ای کو حال ہی جدید خطوط پر استوار کرکے وفاق کی پہلی بڑی اسکلز یونیورسٹی بنایا گیا اور گزشتہ کئی عرصے سے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ خالی ہے جبکہ ادارے کے تمام انتظامی امور ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن سہیل احمد کی نگرانی میں جاری ہیں۔

این آئی ایس ٹی ای کو وفاقی وزارت تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ کی جانب سے سبسڈی حاصل ہے۔

یہ پڑھیں: پی سی بی میں بے ضابطگیاں، ایف آئی اے کی تحقیقات شروع

آڈٹ رپورٹ 18-2017 میں انکشاف ہوا ہے کہ این آئی ایس ٹی ای نے بجلی اور گیس کی مد میں مجموعی طور پر 1 کروڑ 54 لاکھ روپے خلاف ضابطہ وصول کیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ این آئی ایس ٹی ای نے 360 ٹیکنالوجیز سے 11 لاکھ روپے اور کامسیٹ اور نیشنل ٹیسٹنگ سروس سے کل 1 کروڑ 44 لاکھ روپے حاصل کیے جبکہ ادارے نے تمام بجلی، پانی اور گیس کے بل کی ادائیگی حکومتی کھاتے سے کی اور کرایے داروں سے وصول کی گئی رقم میں سے کچھ حصہ سیلف انکم جنریٹڈ پروگرام (آئی جی پی) اکاؤنٹ میں جمع کرایا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ لیز پر دی جانے والی عمارتوں سے یوٹیلٹی کی مد میں موصول رقم کو ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر امور پر خرچ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بے روزگار نوجوان پنجاب کی معیشت کے لیے بڑا چیلنج

آڈیٹرز نے رپورٹ میں لکھا کہ ‘این آئی ایس ٹی ای کی انتظامیہ نے پرائیوٹ اکاؤنٹ سے متعلق آڈیٹرز کو جواب دیا کہ این آئی ایس ٹی ای کے ڈائریکٹر جنرل کے کہنے پر جمع شدہ رقم اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جس کے تحت مختلف نوعیت کے امور پر اخراجات کیا جاتا ہے اور یہ اخراجات منظور شدہ پالیسی کے تحت ہیں’۔

تاہم آڈیٹرز نے انتظامیہ کی جانب سے مذکورہ جواب کو قطعی رد کردیا۔

رپورٹ میں آڈیٹرز نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ ‘ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) این آئی ایس ٹی ای کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے بارے میں سنجیدہ ہے تاہم انتظامیہ انسٹی ٹیوٹ کی عمارتوں کو کرایے پر دینے کی روش پر گامزن ہے جو ادارے کے لیے ایک خطرناک علامت ہے’۔

رپورٹ میں بتایا کہ ‘وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورک کرایہ کی شرح تعین کرتا ہے تاہم اس کے علم میں لائے بغیر ہی این آئی ایس ٹی ای نے عمارتیں کرایئے پر دیں’۔

مزید پڑھیں: پنجاب کے بے روزگار نوجوان انسانی اسمگلرز کا آسان ہدف

رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘این آئی ایس ٹی ای نے فیض احمد فیص روڈ پر قائم ایف سنگل اسٹوری اور ایف ڈوبل اسٹوری عمارتوں کو گلوبل سسٹم آف انٹی گریٹڈ اسٹیڈیز (جی ایس آئی ایس) اسکول اینڈ کولج کو 9 اگست 2017 کو کرایے پر دیا۔

این آئی ایس ٹی ای نے جی ایس آئی ایس سے دو سال کے لیے معاہدہ بلترتیب گزشتہ سال یکم اکتوبر اور 30 ستمبر 2019 کو کیے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ این آئی ایس ٹی ای کی جانب سے عمارتوں کو لیز پر دینے کا مقصد یونیورسٹی بنانے کے عمل کو مزید تاخیر میں مبتلا کرنا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ‘این آئی ایس ٹی دی کے مطابق جی ایس آئی ایس سے معاہدہ پہلے ہی ختم ہو چکا ہے لیکن جی ایس آئی ایس نے عدالت کا رخ کیا اور اب صورتحال کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں دیکھا جارہا ہے’۔

این آئی ایس ٹی ای کے ذرائع نے بتایا کہ آڈٹ رپورٹ 18-2017 کو حتمی شکل دی جا چکی ہے لیکن آڈٹ پیرا پر ادارتی اکاؤنٹس کمیٹی میں زیر بحث لایا جائے گا۔

اس حوالے سے پڑھیں: چینی ساختہ ’انسدادِ کرپشن‘ مہم پاکستان کے لیے کیوں ضروری؟

این آئی ایس ٹی ای کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن سہل احمد نے تصدیق کی کہ آڈیٹرز نے اسپیشل آڈٹ کیا لیکن وہ آڈٹ پیرا نہیں بلکہ محض آڈٹ آبزرویشن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘آڈٹ آبزرویشن کے خلاف ہم نے اپنا نقطہ نظر پیش کردیا ہے اس لیے رپورٹ کی حتمی تیاری سے قبل آڈیٹرز چند پیرا پر کام کریں گے’۔

جی ایس آئی ایس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وفاقی وزارت تعلیم کے نوٹس میں آتے ہی این آئی ایس ٹی ای نے جی ایس آئی ایس سے معاہدہ ختم کردیا لیکن اسکول مینجمنٹ نے کورٹ میں کیس فائل کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘360 ٹیکنالوجیز کو کرایے پر دی جانے والی عمارت کا معاملہ وزارت تعلیم کے زیرغور ہے’۔


یہ خبر 29 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں