پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ زینب قتل کیس کا مرکزی ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے حالیہ دنوں میں زینب قتل کیس کے ملزم کے حوالے سے کیے گئے دعوے اور 17 جنوری کو ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں لاہور میں ہونے والے جلسے کے پیچھے ایک ہی ہاتھ ملوث ہے۔

رانا ثناءاللہ نے قصور میں 8 سالہ بچی زینب کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس واقعے پر پوری قوم افسردہ ہے اور ہر پاکستانی نے زینب اور دوسری بچیوں کا درد محسوس کیا ہے۔

نجی ٹی وی کے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب قتل واقعے کے مرکزی ملزم پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ملزم عمران کے 37 بینک اکاؤنٹ کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا۔

رانا ثناءاللہ نے خیبر پختونخوا پولیس کی تعریف کرنے پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر تنقید کی اور کہا کہ جس پولیس کا عمران خان گن گاتے ہیں وہ اسما کے قاتل کو کیوں گرفتار نہیں کرسکی۔

مزید پڑھیں: زینب قتل ازخود نوٹس: شاہد مسعود کو جے آئی ٹی کے سامنے ثبوت پیش کرنے کا حکم

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت عمران خان کی طرح پولیس کا آلہ کار بن کر اس کے گن نہیں گاتی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس میں پکڑا گیا ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس گروہ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں۔

اس دعوے کے بعد چیف جسٹس نے نوٹس لیا تھا اور انہیں سپریم کورٹ میں طلب کیا تھا، جہاں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت کو ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کراتے ہوئے ایک پرچی پر ان شخصیات کا نام لکھ کر دیئے تھے۔

بعدازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے جے آئی ٹی کو رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اینکر پرسن کے دعوے کے بعد تحقیقات کی گئی لیکن مرکزی ملزم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ملا۔

جس کے بعد ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ڈاکٹرشاہد مسعود کی رپورٹ بے بنیاد اور من گھڑت ہے اور ہم اس رپورٹ کے پیچھے چھپے محرکات سمجھنے سے قاصر ہیں جو انہوں نے نتائج کو دیکھے بغیر چلائی تھی۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل:مرکزی ملزم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں، اسٹیٹ بینک

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

خیال رہے کہ 23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز (24 جنوری کو) ملزم عمران کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جسے عدالت نے 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

بعد ازاں 25 جنوری کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ملزم عمران کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں