حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ مرادن کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس میں استغاثہ کی کمزوری کی وجہ سے اس واقعہ کا مرکزی ملزم عارف خان سزا سے بچنے کے لیے تاحال مفرور ہے، جس نے ایک ویڈیو میں خود اس قتل کا اعتراف بھی کیا تھا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے سلیم ضیاء کا کہنا تھا کہ مشال خان کے قتل کے بعد یونیورسٹی کے اندر کی جو ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، اُس میں دیگر ملزمان کے چہرے بھی صاف دکھائی دے رہے تھے اور بدقسمتی سے جو فیصلہ آیا، اُس میں انہیں بھی سزا نہیں ہوئی، جبکہ ان کے بارے میں یہ علم بھی نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ہی درد ناک واقعہ تھا اور اگر صوبائی حکومت ایک مضبوط استغاثہ کے طور پر سامنے آتی تو شاید ان لوگوں تک بھی پہنچا جاسکتا تھا اور آج انہیں بھی سزا ملتی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ایک ایسی ویڈیو جس میں ملزم خود اعتراف کررہا ہو اور یہاں تک کہ اُس نے اپنے والد کا نام بھی بتایا، لیکن سزائے موت اُسے ہونے کے بجائے ایک دوسرے ملزم کو سنائی گئی، یہ بات حکومتی غفلت اور کیس میں عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے'۔

مزید پڑھیں: مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت اور 5 مجرموں کو 25 سال قید کی سزا

سینیٹر سلیم ضیاء کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی بے قصور کو سزا ہو، مگر بدقسمتی سے جو فیصلہ آیا اُس سے خود مشال کی والدہ بھی مطمین نہیں ہیں۔

تاہم، ان کا مزید کہنا تھا کہ کوشش ضرور ہوئی اور یقیناً یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، مگر اسے ایک بہتر طریقے سے لڑا جائے تو پھر یہ ایک طرح سے مثالی انصاف ہوتا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت کو اب بھی چاہیے کہ وہ اصل ملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری رکھیں، کیونکہ ان کے لیے اُس کو گرفتار کرنا ذرا بھی مشکل نہیں اور اگر وہ آزاد رہا تو اللہ نہ کرے ایسا ہی کوئی واقعہ پھر رونما ہو۔

'پاکستان کی پولیس میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ مشال کے اصل ملزم کو پکڑ سکتی ہے اور اگر نہ پکڑنا چاہے تو راؤ انوار جیسے ملزمان بھی قانون سے آزاد رہتے ہیں'۔

'اصل ملزم ملک سے باہر کیسے گیا؟'

پروگرام میں موجود عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ جب ایک ملزم نے خود اعتراف کیا تو اسے کیوں نہیں پکڑا گیا تاکہ آج اسے بھی سزا ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ 'کچھ اطلاعات ہیں کہ عارف نامی یہ ملزم واقعہ کے بعد گرفتار ہوا تھا اور جیل میں اس کی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی، مگر یہ نہیں پتا چل سکا کہ اسے کس نے رہا کروایا اور پھر اسے کس نے ملک سے باہر بھجوایا؟، یہ یقیناً بہت اہم نوعیت کی سوالات ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج جن لوگوں کو سزائیں سنائی گئیں ہیں، وہی افراد کل اگر عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کریں گے تو معاملہ مزید خراب ہوسکتا ہے اور پھر انصاف پر بھی بڑے سوالات اٹھائے جائیں گے۔

مشال خان قتل کیس

یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔

مشال کی قتل کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر جاری ہوئی تو پورے ملک میں غم و غصہ پیدا ہوا جس کے بعد پاکستان میں توہین کے قانون کے حوالے سے نئی بحث کا بھی آغاز ہوگیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

مشال خان کے والد قیوم خان، ان کے دوست اور اساتذہ نے بھی اے ٹی سی کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس

اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا اور 7 فروری کو فیصلہ سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ مشعال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پی ایس ایف کے صدر صابر مایار اور یونیورسٹی ملازم نے واقعے سے ایک ماہ قبل مشعال کو قتل کرنے کی بات کی تھی، مخصوص سیاسی گروہ کو مشعال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مشعال یونیورسٹی میں بے ضابطگيوں کے خلاف کھل کربولتا تھا جبکہ مشعال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے کوئی ثبوت موجود نہیں ملے۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشعال کے خلاف اکسایا تھا۔

اس میں بتایا گیا کہ تشدد اور فائرنگ کے بعد مشعال سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی تھی، مشعال نے کہا میں مسلمان ہوں، کلمہ پڑھا اور ہسپتال پہنچانے کی التجا کی۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں رجسٹرار سے لے کر سیکیورٹی افسر تک تمام عہدوں پرنااہل سفارشی افراد تعینات ہیں اور سیاسی بنیادوں پر نا اہل افراد کی بھرتی سے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی میں منشیات اور اسلحہ کا استعمال، طالبات کا استحصال عام ہے جبکہ یونیورسٹی کے بیشترملازمین کا مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود ہے اور ان کی چھان بین ہونی جانی چاہیے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کے دوران پولیس کردار پر بھی سوالات اٹھائے تھے، جس میں پوچھا گیا ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کیوں نہیں کی جبکہ غفلت کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کرکے کارروائی کی سفارش بھی کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں