اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ماورائے عدالت قتل از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود کیس میں مفرور ملزم سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کو تلاش کرنے سے متعلق خفیہ ایجنسیوں کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس، جوائنٹ سیکریٹری وزارت دفاع، نقیب اللہ محسود کے وکیل اور دیگر حکام پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران انٹیلی جنس بیور (آئی بی) کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی، تاہم انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کی جانب سے رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ راؤ انوار کی گرفتاری میں کوئی پیش رفت یا کامیابی ہوئی یا نہیں؟ جس پر اے ڈی خواجہ نے جواب دیا کہ نقیب اللہ قتل میں ملوث ڈی ایس پی گرفتار ہوگیا ہے لیکن راؤ انوار تاحال مفرور ہے۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار نے قانونی طریقے سے بیرون ملک سفر نہیں کیا، ایف آئی اے

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو تمام سیکیورٹی اداروں کی مدد فراہم کی تھی، اس کے باوجود ملزم کیوں گرفتار نہیں ہوا؟ آپ نے تمام سیکیورٹی اداروں سے کیا معاونت لی؟ جس پر آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ تمام اداروں سے راؤ انوار کی تلاش کے لیے مدد مانگی تھی، ساتھ ہی راؤ انوار کی لوکیشن، واٹس ایپ کال اور میسیجز کے حوالے سے بھی معلومات مانگی تھی لیکن کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار سے متعلق انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ عدالت میں جمع ہوچکی ہے جس کے مطابق آئی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ پولیس کی تفتیشی ٹیم سے رابطے میں ہیں اور آئی بی نے مفرور ملزم کی فون کالز کا تکنیکی جائزہ لیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی بی کی رپورٹ میں تو کچھ بھی اس کا ذکر نہیں اور آئی ایس آئی کی رپورٹ کہاں ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ اب تک نہیں آئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی رپورٹ کیوں نہیں آئی؟ وضاحت کریں۔

اس دوران عدالت میں کچھ دیر کا وقفہ ہوا، بعد ازاں مختصر وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے سندھ پولیس سے تعاون کیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالتی حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہوئی؟

اس موقع پر عدالت میں موجود جوائنٹ سیکریٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے رپورٹ کے لیے وقت مانگا ہے، اگر ایک ہفتہ مل جائے تو ان اداروں کی رپورٹ آجائے گی، جس پر عدالت نے دونوں اداروں کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ایف سی سے بھی راؤ انوار کی تلاشی سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی کی رپورٹ نہ آئی تو ذمہ دار ادارے کا متعلقہ افسر ہوگا، ہمیں بھی نقیب اللہ محسود کے قتل کا دکھ اور تکلیف ہے، اس معاملے پر سیاست نہیں ہوگی۔

عدالت میں سماعت کے دوران نقیب اللہ کا کیس لڑنے والے این جی او کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا لگتا ہے کہ راؤ انوار کا کوئی ساتھی ان کی مدد کر رہا ہے، لہٰذا میری استدعا ہے کہ راؤ انوار کی ایئر پورٹ سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جائیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چاہتے ہیں راو انوار کی حاضری یقینی بنائی جائے، فوٹیج لے کر شناخت کریں، بندے ہم بلالیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: خفیہ ایجنسیوں کو راؤ انوار کو تلاش کرنے کا حکم

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ شہریار قاضی بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رائو انوار کی دوہری شہریت نہیں ہے اور ہم نے اس بارے میں چیک بھی کیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ راؤ انوار کا اقامہ تو ہے۔

بعد ازاں عدالت نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کو راؤ انوار سے متعلق رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

راؤ انوار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

دوسری جانب کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے نقیب اللہ قتل کیس میں مفرور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت کے دوران کیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پیش کی گئی اور کہا گیا کہ اس کیس کے ازخود نوٹس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ہوں اور عدالت میں پیش نہیں ہوسکتا۔

جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 8 مارچ تک ملتوی کردی۔

اس سے قبل پولیس نے اس کیس کا عبوری چالان انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج کے روبرو پیش کیا تھا۔

چالان میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور ایس ایچ او امان اللہ مروت سمیت 11ملزمان مفرور قرار دیا گیا تھا، جس پر عدالت نے چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر دو میں منتقل کردیا تھا۔

چالان میں بتایا گیا تھا کہ کیس میں گرفتار ملزمان کی تعداد دس ہے، جس میں کانسٹیبل عبدالعلی ، شفیق احمد اور غلام نازک، سب انسپکٹر یاسین، اے ایس آئی سپرد حسین، اے ایس آئی اللہ یار، ہیڈ کانسٹیبل اقبال، کانسٹیبل ارشد علی، ہیڈ کانسٹیبل خضر حیات شامل ہیں جبکہ 11 ملزمان مفرور ہیں۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار آغاز سے انجام تک!

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں