نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے اسلام قبول کرنے والی ہندو خاتون کو اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کو بالغوں کی رضا مندی سے کی جانے والی شادی کو ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں‘۔

خیال رہے کہ واقعے کی تفتیش کرنے والے اہلکاروں نے مسلمان مرد پر داعش کی بھرتیوں کا الزام لگاتے ہوئے اس واقعے کو ’لو جہاد‘ سے جوڑا دیا تھا۔

مزید پڑھیں: مسلمان کا قتل کرنے والے بھارتی شخص کی ایک اور متنازع ویڈیو وائرل

واضح رہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے گروپ کی جانب سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ مسلمان مرد ’لو جہاد‘ کے ذریعے ہندو خواتین سے شادی کرکے انہیں مسلمان ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔

تاہم بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 24 سالہ خاتون کی شادی کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ 24 سالہ خاتون نے اسلام قبول کرکے اپنا نام اخیلہ سے ہادیہ رکھا تھا۔

اس سے قبل بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے (این آئی اے) کی جانب سے کیرلا کے ہائی کورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مسلم مرد کے براہ راست داعش سے تعلقات ہیں اور انہوں نے ہادیہ کا ’برین واش‘ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: ٹرک میں گائے لے جانے پر مسلمان قتل

جس کے جواب میں کیرلا ہائی کورٹ نے ہادیہ کی شادی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے والد کی تحویل میں دے دیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں اپیل سے قبل ہادیہ کی جانب سے ان کے شوہر کے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا گیا تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے تحقیقاتی ادارے کو تفتیش جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔


یہ خبر 09 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں