پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومتی مدت ختم ہونے میں صرف 34 دن باقی ہیں لیکن وفاقی حکومت چھٹا بجٹ آج پیش کرنے جارہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی 5 سالہ مدت 31 مئی 2017 کو ختم ہورہی ہے لیکن اپنی مدت کے اختتام سے صرف 34 روز قبل وفاقی حکومت آج چھٹا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 19-2018 کے لیے پیش کیا جانے والے بجٹ یکم جولائی 2018 سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال سے آپریشنل ہوگا۔

مزید پڑھیں: شرح نمو 5.8، افراط زر 3.8 فیصد رہی، اقتصادی جائزہ رپورٹ

تاہم اکثر لوگ بجٹ کی تقریر میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار سے الجھن کا شکار نظر آتے ہیں لیکن ان تمام چیزوں کے اثرات اور جائزے کے لیے آپ کو یہ اعداد و شمار دیکھنے کی ضرورت ہے۔

محصولات(ٹیکسز)

ذاتی آمدن پر ٹیکس

اس ٹیکس کی بات کی جائے تو ذاتی آمدن پر ٹیکس کی چھوٹ کی حد میں اضافہ کیا گیا اور مالی سال 18-2017 میں اس کی حد 4 لاکھ روپے مقرر تھی جسے بڑھا کر 19-2018 میں 12 لاکھ روپے سالانہ کردیا گیا۔

اس نئی پالیسی کے مطابق 12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں کو 5 فیصد، 24 لاکھ سے 48 لاکھ کی آمدن والوں کو 10 فیصد اور 48 لاکھ سے زائد آمدنی رکھنے والوں کو 15 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کرنا ہوگی۔

کارپوریٹ ٹیکس کی شرح

اگر ہم کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کی بات کریں تو گزشتہ 5 برسوں میں اس کی شرح میں زیادہ کمی نہیں دیکھی گئی اور 2014 میں یہ 34 فیصد، 2015 میں 33 فیصد، 2016 میں 32 فیصد، 2017 میں 31 فیصد اور 2018 میں بھی 31 فیصد رہی۔

تنخواہیں

تنخواہوں اور پینشن کی شرح کی بات کی جانب تو مسلم لیگ (ن) کے موجودہ دور اقتدار میں ہر سال اس میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت رواں سال بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھے گی؟

تںخواہوں کی شرح دیکھی جائے تو 14-2013 میں اس میں 7.5 فیصد سے 10 فیصد، 15-2014 میں 10 فیصد، 16-2015 میں 10 فیصد، 17-2016 میں بھی 10 فیصد اور 18-2017 میں بھی شرح 10 فیصد رہی۔

کم سے کم اجرت

ملک میں مزدور کی کم سے کم اجرت کی بات کی جائے تو 15-2014 میں اس میں 2 ہزار روپے کا اضافہ دیکھا گیا تھا لیکن اس کے بعد ہر سال اس میں ایک ہزار روپے اضافہ کردیا جاتا، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس برس بھی یہ صورتحال برقرار رہتی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: وفاقی بجٹ میں خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے؟

گزشتہ 5 برسوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو 14-2013 میں مزدور کی کم سے کم اجرت 10 ہزار روپے تھی، 15-2014 میں 12 ہزار، 16-2015 میں 13 ہزار، 17-2016 میں 14 ہزار اور 18-2017 میں بڑھ کر 15 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

خسارہ

آسمان سے باتیں کرتا مالی خسارہ پاکستان کے لیے ایک اہم معاملہ رہا اور اس پر شدید بحث بھی کی گئی۔

تجارتی خسارے کی بات کی جائے تو ہر سال اس میں اضافہ ہوا اور 14-2013 میں اس کی شرح 16.6 ارب ڈالر تھی جبکہ 15-2014 میں یہ 17.3 ارب ڈالر، 16-2015 میں 19.3 ارب ڈالر، 17-2016 میں یہ 26.6 ارب ڈالر رہا جبکہ 18-2017 کے حوالے سے ابھی حتمی اعداد و شمار آنے باقی ہیں۔

مالی خسارہ جی ڈی پی (شرح نمو) کے طور پر دیکھا جائے تو 14-2013 میں یہ 5.5 فیصد، 15-2014 میں 5.3 فیصد، 16-2015 میں 4.6 فیصد، 17-2016 میں 5.8 فیصد اور گزشتہ روز جاری کی گئی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق 18-2017 کے ابتدائی 6 ماہ میں یہ 2.3 فیصد رہی۔

قرضہ

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت کی بات کی جائے تو اندرونی قرضوں میں کمی جبکہ بیرونی قرضوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

اندرونی قرضہ جی ڈی پی کے حساب سے دیکھا جائے تو 14-2013 میں یہ 43.6 فیصد، 15-2014 میں 39.1 فیصد، 16-2015 میں 41 فیصد، 17-2016 میں 39.9 فیصد رہا جبکہ 18-2017 کے حوالے سے اعداد و شمار واضح نہیں ہیں۔

بیرونی قرضوں کی بات کی جائے تو 14-2013 میں یہ 20.7 فیصد، 15-2014 میں 24.2 فیصد، 16-2015 میں 26.6 فیصد، 17-2016 میں 27.3 فیصد رہا جبکہ 18-2017 کے بارے میں ابھی اعداد و شمار واضح نہیں۔

ریئل اسٹیٹ

اس شعبے کی بات کی جائے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اعلان کردہ اقتصادی پیکیج نے جائیداد کی قیمت پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی شرح ختم کردی اور صوبوں سے درخواست کی گئی کہ وہ ڈی سی شرح کو ختم کریں۔

اس کے علاوہ وفاقی سطح پر جائیداد کی فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کو مقررہ قیمت کے ایک فیصد تک کم کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: بجٹ سے متعلق مختلف چیمبرز کی تجاویز

تاہم وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ رجسٹریشن کے 6 ماہ کے اندر کہی بھی کوئی بھی انفرادی جائیداد مالی سال 19-2018 میں رجسٹرڈ رقم کی دوگنی رقم ادا کرکے حاصل کرسکتی ہے جبکہ مالی سال 20-2019 میں 75 فیصد اور 21-2020 میں 50 فیصد زائد رقم دے کر حاصل کرسکے گی۔

فارم پیکیج

کسانوں کا خیال ہے کہ ان کی ترجیح اورکاشتکاری کے عمل کا براہ راست خوراک اور خام مال کی دستیابی پر اثر پڑتا ہے اور اقتصادی اصلاحات پیکیج سے دیہی آبادی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، تاہم اس کے باوجود آئندہ بجٹ سے کافی امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں