اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی وزیر برائے نجکاری اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی، اس دوران استغاثہ کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر وقار رانا نے عدالت کو بتایا کہ یہ مقدمہ ادارے پر حملے سے متعلق ہے اور دانیال عزیز نے 3 بیانات دیے۔

استغاثہ نے بتایا کہ دانیال عزیز نے ایک بیان دیا کہ (سپریم کورٹ کے نگراں جج نے نیب ریفرنس بنوایا) یہ الزام ہے، اس کے بعد انہوں ڈان نیوز پر چلایا گیا کہ ایف زیڈ ای کی بات کیسے ان کے کانوں تک پہنچی جبکہ دانیال عزیز نے اپنے بیانات سے انکار نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: دانیال عزیز توہین عدالت کیس: ’کورٹ میں پیش کی گئی ویڈیو اصلی نہیں‘

وقار رانا نے عدالت کو بتایا کہ دانیال عزیز کے بیانات عدلیہ کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے اور فرد جرم عائد ہونے کے بعد دانیال عزیز کی تقریروں پر دو گواہ عدالت میں پیش کیے گئے۔

دوران سماعت استغاثہ نے بتایا کہ روزنامہ دنیا کے رپورٹر نے دانیال عزیز کی پریس کانفرنس کا درست تاثر رپورٹ کیا، جب ایک صحافی یہ تاثر لے سکتا ہے تو عوام کیسے متاثر نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے بتایا کہ مقامی اخبار کی خبر مجموعی پریس کانفرنس کا نچوڑ تھی اور دانیال عزیز کے عمران خان کے فیصلے پر بیان کو مناسب تبصرہ نہیں کہا جاسکتا۔

وقار رانا نے عدالت کو بتایا کہ دانیال عزیز نے کہا کہ ہم جسٹس اعجاز الاحسن کی تاریخ قوم کو بتائیں گے۔

اس دوران دانیال عزیز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مقامی اخبار میں چھاپی گئی خبر سے متعلق یہ دلیل ہے کہ وہ بات جو میرے موکل نے نہیں کی وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے۔

وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ نہیں بنتا، ڈان نیوز پر چلائی گئی ویڈیو نجی میٹنگ تھی۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے دانیال عزیز کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے موکل عدالت کے پسندیدہ بچے ہیں۔

سماعت کے دوران وکیل نے مزید کہا کہ ڈان نیوز پر چلنے والی ویڈیو کس نے بنائی؟ اور مکمل ویڈیو کہا ہے؟ اس ویڈیو کو بنانے والے کو گواہ کے طور پر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل نے عمران خان سے متعلق فیصلے پر تبصرہ مختصر فیصلہ سن کر کیا جبکہ جاوید ہاشمی نے بھی اپنی تقریر میں لفظ اسکرپٹ کا استعمال کیا۔

دانیال عزیز نے وکیل نے کہا کہ لفظ اسکرپٹ پہلے بھی متعدد بار دہرایا گیا جبکہ میرے موکل کا تبصرہ غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق تھا۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ اظہار رائے کی آزادی میں توازن قائم ہے، اسے وہاں تک نہ لے کر جائیں کہ کچھ نہ بچے، جن مملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہوتی وہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی۔

دوران سماعت وکیل دانیال عزیز نے مزید کہا کہ ان کے موکل انسان ہیں اور وہ عدالت کا مکمل احترام کرتے ہیں اور انہوں نے عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد بھی کی۔

عدالت میں سماعت کے دوران دانیال عزیز نے کہا کہ 2001 میں قانون میں اصلاحات کی گئیں اس وقت میں شامل تھا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں علم ہے۔

دانیال عزیز نے کہا کہ جب میڈیا آزاد ہوا تو میں ٹی وی چینلز پر جاتا رہا، میری زندگی ادارے بنانے میں گزری، مجھ پر کوئی ایک روپیہ بھی ثابت نہیں کرسکتا۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کمرہ عدالت میں تقریر شروع کردی، یہ تقریر عدالت سے باہر جا کر کریں، ہمارے سامنے یہ مقدمہ نہیں ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جس طرح جلسے سے لوگ جانا شروع ہوجاتے ہیں اس طرح آپ کی باتیں سن کر لوگ جانے لگے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: دانیال عزیز کی تقاریر کا ٹرانسکرپٹ اور ویڈیوز طلب

دانیال عزیز نے کہا کہ میں بغیر کسی اگر مگر کے عدلیہ کا احترام کرتا ہوں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دانیال عزیز آپ کا شکریہ، ہم فیصلہ محفوظ کرتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائے گا۔

دانیال عزیز توہینِ عدالت کیس — کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ رواں برس 2 فروری کو سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف تقریر کے ازخود ںوٹس کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردیا تھا۔

7 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے دانیال عزیز کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لیے 10 روز کی مہلت دے دی تھی۔

19 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ دانیال عزیز کا 9 جون 2017 کو دنیا اخبار میں شائع بیان، 15 دسمبر 2017 کو ڈان نیوز اور نیو ون ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرامز میں دیے گئے بیانات پر دانیال عزیز بادی النظر میں توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں، جس پر انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے مزید ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

23 فروری کو سپریم کورٹ نے دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ڈان نیوز سمیت دو نجی ٹی وی چینلز کی دانیال عزیز کی تقریر سے متعلق نیوز کلپس اور ٹرانسکرپٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

13 مارچ کو عدالتِ عظمیٰ نے دانیال عزیز کے خلاف توہینِ عدالت کیس میں فردِ جرم عائد کردی، اور جسٹس مشیر عالم نے فردِ جرم پڑھ کر سنائی۔

16 اپریل کو اس کیس میں وفاقی وزیر برائے نجکاری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز نے موقف اختیار کیا تھا کہ عدالت میں پیش کی گئی ویڈیو کلپس اور ڈان نیوز پر چلنے والے ویڈیو کلپس میں مطابقت نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں