ٹیکسلا: خان پور ڈیم میں پانی کی سطح کم ہونے کے بعد ڈیڈ لیول سے صرف 20 فیصد اوپر رہ گئی، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کو پانی کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پانی کے ذخائر کم ہونے پر حکام کی جانب سے خطرے کا اظہار کیا گیا اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور راولپنڈی میں کنٹونمنٹ بورڈز کو کہا گیا کہ وہ پانی کے محفوظ کرنا شروع کردیں۔

اس حوالے سے ڈیم انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پانی جمع کرنے والے علاقوں میں بارشیں نہ ہونے، گرم اور خشک موسم کے باعث پانی کے ذخائر میں بڑی حد تک کمی ہوئی۔

مزید پڑھیں: ’حکومت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے پانی کے ذخائر سے کھیل رہی ہے‘

ڈیم کے ایک عہدیدار عرفان خٹک نے ڈان کو بتایا کہ ڈیم میں پانی کے ذخائر ڈیڈ لیول سے صرف 20 فٹ اوپر ہیں اور اگر بارش نہیں ہوتی تو یہ پانی صرف ایک مہینے تک استعمال کیا جاسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ مختلف بینیفشریز کو پانی کی فراہمی کے باعث یومیہ پانی کی سطح میں 0.10 فٹ کمی ہورہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پانی کی یومیہ طلب 146 کیوسک ہے جبکہ اس کی رسائی اس سے کہی کم صرف 45 کیوسک یومیہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیم میں پانی کی سطح میں کمی کے باعث خیبرپختونخوا اور پنجاب میں آب پاشی کے لیے فراہم کیے جانے والے پانی میں بھی کمی ہوئی ہے۔

چکوال کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ تاحال مکمل نہ ہوسکا

دوسری جانب چکوال شہر کو پانی کی فراہمی کے لیے میگا پروجیکٹ تاحال مکمل نہیں ہوسکا کیونکہ ترقی و منصوبہ بندی بورڈ نے نظرثانی شدہ لاگت کا تخمینہ منظور نہیں کیا۔

اس بارے میں ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی اختلافات کے باعث رواں سال دسمبر میں مکمل ہونے والا اس منصوبے کا اب دسمبر 2020 میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ مئی 2013 میں ایک جلسے کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ منتخب ہوئے تو چکوال شہر میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کردیں گے۔

تاہم چکوال سے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے 6 نشستیں جیتنے کے باوجود بھی عوام کے لیے پینے کے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔

اس حوالے سے ڈان کو حاصل شدہ دستاویزات کے مطابق ستمبر 2013 میں ایم این اے عفت لیاقت کی درخواست پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے شہر کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کو آگے بڑھایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پانی کی قلت کی باتوں میں کوئی سچائی نہيں؟

بعد ازاں مارچ 2014 میں پنجاب حکومت کی جانب سے اس منصوبے کو انتظامیہ طور پر منظور کیا گیا تھا اور اس منصوبے کی تفصیلی لاگت پبلک ہیلتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای) ڈپارٹمنٹ کے چیف انجینئر نے لگائی تھی۔

54 کروڑ 76 لاکھ روپے کے اس منصوبے پر اسی سال مئی میں آغاز ہوگیا تھا جبکہ اس کی تکمیل رواں سال دسمبر تک ہونی تھی۔

اس منصوبے میں خائی ڈیم سے 2 کیوسک جبکہ 16 ٹیوب ویل سے 4 کیوسک پانی لینا تھا، تاہم بھوئن، خائی اور شمس آباد کے رہائیشیوں نے ٹیوب ویل کی تنصیب اور پانی کی کمی کے باعث لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

اس درخواست پر عدالت کی جانب سے متعلقہ انتظامیہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس منصوبے میں تبدیلی کرے، جس کے بعد اس منصوبے کی لاگت 54 کروڑ 76 لاکھ روپے سے بڑھ کر ایک ارب 20 کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rana May 25, 2018 06:02pm
Already there is severe shortage of water in Rawalpindi. Bore wells are drying out and cantonement board is supplying very little or no water at all. Tanker water suppliers are making money.