اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ملک کے سیاستدانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے لیے سیکیورٹی کا بندوبست خود کریں۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن کو خاص طور پر ہدایت دیتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اس بات کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی کہ سیاستدان اپنی انتخابی مہم ریاست کے اخراجات پر چلائیں۔

چیف جسٹس نے وفاقی و صوبائی وزرا اور دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی جانب سے لگژری گاڑیوں کے استعمال پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کہی، واضح رہے قانون کے مطابق وزرا اور سرکاری عہدیداران 1800 سی سی سے زائد کی گاڑیاں استعمال نہیں کرسکتے.

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: شاہد خاقان عباسی سےوزراءکیلئےمنظور کردہ لگژری گاڑیوں کاریکارڈ طلب

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ، مولانا عبدالغفور حیدری، اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر کامران مائیکل کو حکومت کی فراہم کردہ گاڑیوں کے استعمال پر نوٹس بھیجنے کی ہدایت کردی۔

تاہم جب سینئر وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے گاڑیاں واپس لے لی ہیں تو عدالت نے اپنے احکامات واپس لے لیے، کامران مرتضیٰ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن پر 3 قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: غیرمتعلقہ افراد کی سیکیورٹی پر مامور 13 ہزار سیکیورٹی اہلکار واپس

تاہم عدالت نے وکیل کو بطور خاص ہدایت کی کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ کو اپنی حفاظت کا انتظام خود کرنا چاہیے، ساتھ ہی وکیل کو یہ بھی کہا کہ عدالت کو اس بات کی تفصیلات فراہم کی جانی چاہیے کہ اب تک عوام کا کتنا پیسہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیکیورٹی پر خرچ کیا جاچکا ہے۔

عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو حکومت کی جانب سے دی جانے والی حفاظتی گاڑیوں کے بارے میں دریافت کیا، جس پر سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ دونوں رہنما اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیر اعظم سمیت تمام مقامی ایئرلائنز کے سربراہان کو طلب کرلیا

بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پروٹوکول اور سیکیورٹی میں فرق ہوتا ہے، میں چیف جسٹس اور وزیر اعظم سے کہتا ہوں کہ آئیں مجھ سے پروٹوکول کا تبادلہ کریں۔

سپریم کورٹ نے لاء آفیسر کو ہدایت کی ماڈل ٹاؤن میں واقع شہباز شریف کی رہائش گاہ پر سیکیورٹی انتظامات کی ویڈیو بنا کر پیش کی جائے۔

عدالت کی جانب سے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا گیا کہ کس قانون کے تحت سابق وزیراعلیٰ کو بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی گئیں، شہباز شریف کی رہائش گاہ کو جانے والے راستے اور پورے علاقے میں جگہ جگہ پولیس چوکیاں قائم ہیں جبکہ گاڑیاں پارکس میں کھڑی کی جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن: شہباز شریف سپریم کورٹ میں پیش

عدالت نے ہدایت دی کہ مذکورہ علاقے سے تمام چوکیوں اور رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جائے، اس کے ساتھ عدالت نے بلوچستان کے سابق وزرا کو حکم دیا کہ یا تو آج رات تک گاڑیاں واپس کریں یا ایک لاکھ روپے یومیہ جرمانہ بھریں، جو اگلے ہفتے 2 لاکھ روپے یومیہ کردیا جائے گا۔

اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے لگژری گاڑیاں استعمال کرنے والے 105 وزیروں اور سرکاری عہدیداران سے گاڑیاں واپس لے لی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: سیکیورٹی کے نام پر بند سڑکیں فوری طور پر کھولنے کا حکم

بلوچستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں بھی 56 میں سے 49 سرکاری گاڑیاں واپس لے لی گئیں۔

سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں حکومتِ پنجاب نے بھی صوبائی کابینہ کے اراکین، سرکاری عہدیداروں، اور خاص کر پبلک سیکٹر کی متنازع کمپنیوں کی سرکاری گاڑیاں واپس لینے کا عمل شروع کردیا ہے۔


یہ خبر 6 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں