اسلام آباد: پاکستان میں ماحولیات کے نگراں ادارے پاکستان ماحولیاتی حفاظتی ایجنسی (پاک ای پی اے) اب تک وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں فضلہ تلف کرنے کا انتظام کی نگرانی کے لیے نظام وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

عالمی ادارہ صحت اور ہیلتھ سروس اکیڈمی اسلام آباد کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے ہسپتالوں کا تقریباً 7 ہزار 500 کلو طبی فضلہ خارج ہوتا ہے جس کی شرح 2.5 کلو فی بستر ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان ہسپتالوں سے نکلنے والا تقریباً 20 فیصد طبی فضلہ انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جسے فوری اور منظم طور پر تلف کرنے کی ضرورت ہے۔

ہسپتالوں کو ویسٹ منیجمنٹ سروس فراہم کرنے والے محمد علی سیکھری کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک ہزار سے 2 ہزار کلو طبی فضلے کو جلا کر ختم کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: عوامی مرکز میں آتشزدگی، دو افراد جاں بحق

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہسپتالوں کا طبی فضلہ عام کوڑا دانوں پر پھینکا جاتا ہے، اور پھر یہ ماحول اور فضا میں آلودگی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

ہیلتھ سروس اکیڈمی اسلام آباد کے ایک اہلکار نے بتایا کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) تقریباً 13 سو بستروں پر مشتمل وفاقی دارالحکومت کے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ہے اور اس کا کوئی ویسٹ منیجمنٹ سسٹم موجود نہیں ہے، جبکہ شہر میں صرف شفا ہسپتال اور پاکستان ایئر فورس ہسپتال کے پاس اس کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔

وزارتِ ماحولیات کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ہسپتالوں سے آپریشن کے بعد انسانی اعضا اور خون سمیت دیگر حیاتیاتی فضلہ نکلتا ہے جس سے انسانی صحت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں دل، پھیپھڑوں کا مرض ہرچار میں سےایک شخص کی موت کی وجہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہسپتالوں سے نکلنے والا طبی فضلہ ماحول کے لیے انتہائی مہلک ہے جسے ختم کرنے کے لیے ایک مخصوص طریقہ کار کی ضرورت ہے۔

وزارتِ ماحولیات کے ایک اور اہلکار نے پاک ای پی اے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ادارہ ویسٹ منیجمنٹ کے معاملے کو صرف شکایتی بنیادوں پر حل کر رہا ہے جبکہ اس کے لیے باقاعدہ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔

وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان طارق نے اعتراف کیا کہ ہسپتالوں کا فضلہ ختم کرنے کا بد ترین نظام علاقے کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں