اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس صرف 10 ماہرین موجود ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ڈائریکٹر کیپٹن (ر) محمد شعیب نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اور ٹیلی کمیونکیشن کو بتایا کہ ’سائبر کرائم کے لیے ایف آئی اے کے قومی رسپانس سینٹر کے پاس انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے انٹرنیٹ بینک فراڈز، لاٹری اسکیم اور سوشل میڈیا پر ہونے والے دیگر جرائم کو روکنے کے لیے صلاحیت کا فقدان ہے۔

مزید پڑھیں: سائبر کرائم ایکٹ کے تحت عدالت نے پہلی سزا سنادی

انہوں نے بتایا کہ کابینہ ڈویژن کی منظوری کے ساتھ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت ایف آئی اے کو تحقیقاتی ایجنسی کے طور پر شامل کیا گیا، اسی طرح مختلف اضلاع میں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی مشاورت سے پیکا کے تحت عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2 سال سے پیکا کے منظور ہونے کے بعد شکایات کی تعداد بڑھ کر 2 ہزار سے 3 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ 2016 سے 2018 کے درمیان 18 ہزار سے زائد شکایات رپورٹ ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2 برس کے دوران پنجاب میں سائبر کرائم سے متعلق 7 ہزار 800 سے زائد شکایتیں رپورٹ ہوئی، اس کے علاوہ سندھ میں 4 ہزار 19، اسلام آباد میں 4600 سے زائد، خیبرپختونخوا میں 1500 سے زائد جبکہ بلوچستان میں 290 شکایات درج کی گئیں۔

محمد شعیب نے بتایا کہ 2600 سے زائد کیسز میں ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان تحقیقات کی تعداد کی ایک وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر کیسز میں شکایت کنندگان خاص طور پر اپنے خلاف مبینہ الزامات پر خواتین زیادہ تر آگے نہیں آتیں جبکہ اس معاملے میں تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی خواتین تحقیقات کار بھی موجود ہیں۔

اس موقع پر کمیٹی نے مایوسی کا اظہار کیا کہ پیکا کے تحت ایف آئی اے کی کارروائیوں سے متعلق قانون کابینہ سے منظور ہونے کے باوجود محکمہ قانون کے پاس حتمی نظرثانی کے عمل میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم بل

ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈائریکٹر نے کمیٹی کو بتایا کہ ’قانون کے بغیر ایف آئی اے بڑی تعداد میں شکایات پر کارروائی کرنے کے لیے مزید اسٹاف کو شامل اور تربیت نہیں دے سکتا جبکہ بغیر قانون کے ایف آئی اے کو سائبر کرائم سے لڑنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے‘۔

اس دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ بغیر قانون اور طریقہ کار کے ایف آئی اے کس طرح شکایت درج کر کے ان پر تحقیقات کر رہی ہے؟ جس پر حکام نے بتایا کہ پیکا کے ہونے کے باوجود ایجنسی پرانے ایکٹ کے تحت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں