اسلام آباد: نیشنل پارٹی (این پی) نے انتخابات 2018 میں مبینہ دھاندلی کو بلوچستان کے محروم طبقوں کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا سبب قرار دے دیا۔

نیشنل پریس کلب میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے این پی کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ پولنگ ایجنٹس کو ہٹا دیا گیا یا انہیں پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دھاندلی کی شکایات پر تمام حلقے کھلوانے کیلئے تیار ہوں، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں بیلٹ پیپرز منسوخ کردیئے گئے اور ان کے انتخابی نشان پر 2 مرتبہ اسٹیمپ لگائی گئیں۔

پی بی 32 (کوئٹہ) سے انتخابات لڑنے والی یاسمین لہڑی نے کہا کہ وہ صوبے کی پہلی خاتون امیدوار تھی جنہوں نے عام نشست پر مقابلہ کیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ق) پر مشتمل سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار کو ان کے حق میں دستبردار کیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’انہیں شکست سے دوچار کرنے کے لیے خصوصی طور پر انتظامات کیے گئے، ان کے بیشتر پولنگ ایجنٹس کو اس خیال سے پولنگ اسٹیشن میں بیٹھنے نہیں دیا گیا کہ رش ہو جائے گا اور جو لوگ زبردستی پولنگ اسٹیشنز میں داخل ہوئے انہیں ظہر کی نماز کے لیے بھیج دیا گیا اور ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد انہیں پولنگ اسٹیشن کے اندر آنے نہیں دیا گیا‘۔

مزید پڑھیں: بٹ گرام میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مسلسل تیسرے روز احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ ’کامیابی کو جان بوجھ کر شکست میں بدل دیا گیا کیوں کہ بعض لوگ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگ تاحال پسماندہ سوچ کے حامل ہیں جو خواتین کو ووٹ دینے کے حق میں نہیں‘۔

پی پی 44 (مروان) سے خیر جان نے کہا کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما عبدالقدوس بزنجو کے مقابلے میں ضلعی کونسل کے انتخابات میں 2 مرتبہ کامیابی حاصل کر چکے ہیں، لیکن انتخابات 2018 میں شکست ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے پولنگ ایجنٹس کے لیے تمام تر مشکلات کے باوجود میں 15 سو ووٹ کا فرق رہا جبکہ 3 ہزار بیلٹ پیپرز مسترد ہوئے کیونکہ میرے انتخابی نشان پر ڈبل اسٹیمپ تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’انتخابات میں دھاندلی‘ کے خلاف تحریک لبیک کا 6 اگست کو احتجاج کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے پاس دوبارہ گنتی کی درخواست لے کر گئے لیکن مسترد کر دی گئی‘۔

بی پی 8 کے انتخابی امیدوار کریم نے کہا کہ وہ 65 ووٹوں کے فرق سے کامیاب نہ ہوسکے جبکہ ان کے حلقے کے 2 ہزار ووٹ مسترد کردیئے گئے۔


یہ خبر 5 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں