بنگلہ دیش میں روہنگیا کے رہنماؤں نے اقوام متحدہ سے میانمار میں جنرلز کے ٹرائل کا مطالبہ کردیا۔

اقوام متحدہ کے میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فیکٹ فائنڈنگ مشن کا کہنا تھا کہ ملک کے آرمی چیف اور 5 دیگر سینیئر عہدیداران کے خلاف گزشتہ سال روہنگیا اقلیت کریک ڈاؤن کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کونسل کی جانب سے بنائی گئی رپورٹ میں روہنگیا کے خلاف ظلم و بربریت کی تفصیلی کہانیاں شامل کی گئیں جن میں قتل، جبری گمشدگی، تشدد اور بڑے پیمانے پر جنسی زیادتیاں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کی ٹیم کی روہنگیا متاثرین سے ملاقات: ’ریپ اور قتل کے واقعات سنے‘

رپورٹ کے مطابق 2017 میں کریک ڈاؤن میں تقریباً 10 ہزار افراد کا قتل ہوا۔

واضح رہے کہ میانمار کی جانب سے مسلسل ان الزامات کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا کہ انہوں نے روہنگیا باغیوں کے حملوں کا جواب دیا تھا۔

جنوبی بنگلہ دیش میں روہنگیا کمیونٹی کے تقریباً 10 لاکھ افراد کے رہنما نے تحقیقات کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ’ہم اقوام متحدہ کی انصاف کی فراہمی کی قابلیت کو پرکھیں گے‘۔

روہنگیا کمیونٹی کے رہنما عبدالغفور نے اے ایف پی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اقوام متحدہ کو یقین دہانی کرانی ہوگی کہ انصاف روشنی کا منتظر ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کا واپس لوٹنا ابھی خطرے سے خالی نہیں، ریڈکراس

انہوں نے دی ہیگ میں عالمی کرمنل کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’فوجی کمانڈروں کو آئی سی سی میں ٹرائل کا سامنا کرنا چاہیے‘۔

خیال رہے کہ تحقیق کاروں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو میانمار میں صورت حال پر آئی سی سی میں ایڈ ہاک انٹرنیشنل کرمنل ٹربیونل بنانے کی تجویز دی ہے۔

سلامتی کونسل نے بارہا میانمار سے فوجی آپریشنز ختم کرنے اور روہنگیا افراد کی باحفاظت گھروں کو واپسی کا کہا ہے۔

تاہم ان کے اس اقدام کو کونسل ممبران اور میانمار کے اتحادی چین کی جانب سے محدود کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ تحقیق کاروں کو میانمار میں تحقیق کے لیے اجازت نہیں دی گئی تھی اور ان کی تحقیق 875 متاثرین اور عینی شاہدین کے انٹرویو، سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر، تصدیق شدہ دستاویزات، تصاویر اور ویڈیوز پر مبنی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں