پاکستان کی آئی ایم ایف سے سب سے بڑا قرض پیکیج حاصل کرنے کی کوشش

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2018
پاکستان پر شرائط کیلئے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے— فائل فوٹو
پاکستان پر شرائط کیلئے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے— فائل فوٹو

واشنگٹن: سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کے موجودہ بحرانوں کی وجہ سے معیشت کو درپیش خطرات کا تدارک کرنے کے لیے پاکستان، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے سب سے بڑا 8 ارب ڈالر تک کا قرض حاصل کرنا چاہے گا۔

سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ آئی ایم ایف سخت شرائط رکھ سکتا ہے اور قرض کی سہولت 12 ارب ڈالر تک بڑھا سکتا ہے، تاہم اضافی قرض کے حصول کے لیے پاکستان پر ان شرائط کو مکمل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت 'آئی ایم ایف' کے مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد کیلئے تیار

خیال رہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے پیر (8 اکتوبر) کی رات کو اس بات کی تصدیق کی تھی پاکستان کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے۔

اس اعلان کے بعد اسٹاک مارکیٹ شدید بحران میں آئی تھی اور ایک روز میں 1300 سے زائد پوائنٹس کی کمی سے 270 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔

پاکستان کے اعلان کے بعد آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ مالی تعاون کے لیے پاکستان کی درخواست کو ’بہت توجہ‘ سے سنیں گے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان آئی ایم ایف سے درجن سے زائد مالی تعاون کے پیکیجز لے چکا ہے اور اس کا 6 ارب 40 کروڑ روپے کا آخری پیکیج اگست 2016 میں مکمل ہوا تھا، جو آئی ایم ایف پر پاکستان کے کوٹے کا 216 فیصد تھا۔

آئی ایم ایف سے لیے گئے پچھلے پروگرواموں کا مقصد ’افراط زر کو نیچے لانا اور مالیاتی خسارے کو کم کرکے مستحکم سطح تک لانا تھا‘، اس کے علاوہ ’ زیادہ اور بہتر ترقی کے حصول میں مدد کے لیے اقدامات کرنا تھا‘۔

دوسری جانب آئی ایم ایف ماہر معاشیات موریس اوبسفیڈ نے پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی بحران کا ذکر کیا اور مالی مدد کرنے کی صلاحیت ظاہر کی۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان آئی ایم ایف کے پاس جانے پر قوم سے معافی مانگیں‘

ایک سوال کے جواب میں کہ ایمرجنسی بیل آؤٹ پیکیج کے لیے پاکستان کی درخواست پر آئی ایم ایف کیا ردعمل دے گا تو اس پر انہوں نے کہا کہ ’ اچھے تعلقات والا ہر رکن فنڈ کے ذریعے مالی معاونت کی درخواست کا حقدار ہے، لہٰذا جب وہ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم ان کو بہت توجہ سے سنیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں کئی مرتبہ پاکستان نے مسلسل پروگرامز حاصل کیے اور یہ ایک اچھی نشانی ہے جو آگے بڑھ رہی ہے‘۔


یہ خبر 11 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں