سعودی عرب کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادے کے مطابق جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو ترکی میں قائم سعودی سفارت خانے سے لاپتہ ہوئے تھے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی سابق اہلیہ کو طلاق دینے سے متعلق دستاویزات لینے گئے تھے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو سفارت خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ’سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا‘

سعودی حکام نے اس دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل سفارتخانے کی عمارت سے باہر جا چکے تھے۔

سعودی شہزادے خالد بن فرحان السعود، جو خود ساختہ جلا وطنی کے بعد جرمنی میں قیام پذیر ہیں، نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے سے قبل سعودی حکام نے انہیں بھی اس ہی طرح اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

دی انڈپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی کی گمشدگی ولی عہد محمد بن سلمان کی تنقید کاروں کو خاموش کرنے کی کڑی کا ایک حصہ ہے۔

41 سالہ شہزادے کا کہنا تھا کہ سعودی حکام نے ان سے بھی مصر میں قائم سعودی سفارت خانے جانے اور حکام سے ملاقات کرنے کی شرط پر کروڑوں ڈالر ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘لاپتہ صحافی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا’

ان کا کہنا تھا کہ ’حکام نے مجھ سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے مالی حالات بہتر نہیں ہیں، ہم مدد کرنا چاہتے ہیں، آپ محفوظ رہیں گے‘۔

انہوں نے بتایا کہ تقریباً سعودی شاہی خاندان کے 5 افراد نے خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے کی کوشش کی تھی، انہیں مبینہ طور پر لاپتہ کردیا گیا اور وہ کہاں ہیں یہ کسی کو معلوم نہیں۔

سعودی شہزادے کا کہنا تھا کہ ملک میں کئی شہزادے اس وقت خوفزدہ ہیں، 5 روز قبل آل سعود خاندان کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرنے کے لیے چند افراد نے فرمانروا شاہ سلمان سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی، ان سب کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہر کوئی خوف زدہ ہے‘۔

مزید پڑھیں: صحافی کی گمشدگی پر ترک سعودی تعلقات میں تناؤ کا خدشہ

خیال رہے کہ گزشتہ روز سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صحافی اور امریکی رہائشی جمال خاشقجی کے خلاف آپریشن کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

صحافی جمال خاشقجی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان اور ان کے اقتدار کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

امریکی اخبار نے ملک کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار کا نام بتائے بغیر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ خاشقجی کے بارے میں یہ اطلاعات تھیں کہ سعودی عرب ان کو لالچ دے کر قید کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

اخبار کے مطابق جمال خاشقجی کے دوستوں کا کہنا تھا کہ سعودی حکام نے صحافی سے رابطہ کرکے پیشکش کی تھی کہ اگر وہ واپس سعودی عرب آجائیں تو انہیں حفاظت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سرکاری نوکری بھی دی جائے گی لیکن خاشقجی نے اس پیشکش کو مسترد کیا تھا کیونکہ انہیں یہ مشکوک دکھ رہا تھا۔

مزید پڑھیں: خاشقجی کی گمشدگی پر آر ایس ایف کا بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ

اس سے قبل بین الاقوامی صحافیوں کی وکالت کرنے والے ادارہ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے ترکی میں قائم سعودی سفارتخانے سے 2 اکتوبر کو گمشدہ ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر خود مختار بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

سعودی عرب سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے جبکہ ادارے نے بھی ان کی گمشدگی کی تصدیق کی تھی۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہو گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

جمال خاشقجی کی منگیتر کے مطابق وہ استنبول میں قائم سعودی سفارتخانے میں داخل ہوئے تھے اور اس کے بعد سے انہیں کسی نے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے متعلق کوئی اطلاعات موصول ہوئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں