بدعنوانی کے خلاف سخت قانون متعارف کروانے کی تیاریاں مکمل

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2018
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق وہسل بلووور ایکٹ جلد منظور کروالیا جائے گا—فوٹو: حکومت پاکستان ٹوئٹر
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق وہسل بلووور ایکٹ جلد منظور کروالیا جائے گا—فوٹو: حکومت پاکستان ٹوئٹر

اسلام آباد: سرکاری اداروں میں بدعنوانی کی روک تھام کے لیے حکومت نے ’وہسل بلوور پروٹیکشن اینڈ ویجیلنس کمیشن‘ متعارف کروانے کی تیاری مکمل کرلی، اس ایکٹ کے تحت قانون کا نفاذ ان اداروں پر نہیں ہوگا جنہیں آئینی استثنیٰ حاصل ہے۔

اس حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت بدعنوانی کی نشاندہی کرنے والے کی شناخت صیغہ راز میں رکھی جائے گی جبکہ اس سے مخبر کی دی جانے والی اطلاعات پر کمیشن کو بھرپور نگرانی کرنے اور سول پروسیجر کوڈ (سی پی سی)، کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) ، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور قومی احتساب آرڈیننس (این ا او) کے تحت کارروائی کا اختیار حاصل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: 1300 بدعنوانی کے مقدمات: نیب کا 1 کھرب روپے کی وصولی کا فیصلہ

تاہم وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس قانون کا اطلاق عدلیہ اور فوج پر نہیں ہوگا جنہیں آئینی استثنیٰ حاصل ہے جبکہ ان دونوں اداروں میں احتساب کا علیحدہ نظام موجود ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ یہ قانون پہلے سے موجود پبلک انٹرسٹ ڈسکلوژر ایکٹ برائے سال 2017، وہسل بلوور ایکٹ اور وہسل بلوور پروٹیکشن اینڈ ویجیلنس کمیشن برائے سال 2016 سے مختلف ہوگا۔

وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت حکومت بدعنوانی کی نشاندہی کرنے والے فرد کو 20 فیصد کیش انعام دے گی۔

مزید پڑھیں: کرپشن کے خلاف ستّر سالہ طویل 'جنگ' پر ایک نظر

کمیشن کے قیام کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کمیشن ایک چیئرمین سمیت 3 افراد پر مشتمل ہوگا جن کا انتخاب شفافیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے سرکاری و نجی شعبے سے کیا جائے گا جبکہ کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی سرکاری افسر کو طلب کرلے۔

کمیشن کے کام کے طریقہ کار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کسی بھی شکایت کو انسدادِ بدعنوانی کے ادارے میں بھیجنے سے قبل از خود ابتدائی تحقیقات کرے گا جس کے نتائج کو ’ریفرنس‘ کا درجہ حاصل ہوگا۔

اس کے بعد متعلقہ ادارہ عدالت میں اس کے خلاف باقاعدہ ریفرنس فائل کرے گا جو احتساب عدالت، انسدادِ بدعنوانی کی عدالت اور سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ریاستی ادارے کرپشن کے خاتمے میں ناکام کیوں ہیں؟

کمیشن جن درخواستوں پر غور کرے گا ان میں بدعنوانی کی شکایات، منی لانڈرنگ اور انسداد بدعنوانی کے تحت دیگر جرائم کی شکایات شامل ہیں، اس سے قبل کمیشن ،جس ادارے کے خلاف شکایات کی جاتی تھیں اس کے سربراہ کو ارسال کردیا کرتا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر قانو ن کا کہنا تھا کہ وہ پورے ملک کے لیے ایک مرکزی ادارہ بنانا چاہتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ وفاقی کابینہ صوبائی سطح پر اسی طرز کے نگرانی کمیشن کے قیام کی منظوری دے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانو ن کی منظوری کے ساتھ ہی کمیشن اپنے کام کا آغاز کردے گا جس کے لیے ہوسکتا ہے کہ عارضی بنیادوں پر سرکاری افسران کی خدمات حاصل کی جائیں جب تک اس میں مستقل بنیادوں پر تعیناتی نہیں ہوجاتی۔

مزید پڑھیں: سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

وزیر قانون نے امید ظاہر کی کہ ایک مضبوط نگرانی کمیشن اور بدعنوانی کی نشاندہی کرنے والی شخص کی حفاظت کی یقین دہانی سے حکومت سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بھرپور اقدامات کرسکے گی۔


یہ خبر 27 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں