وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ارکان کابینہ نے سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کی جانب سے معافی مانگنے سے متعلق ’رولنگ‘ پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔

اسلام آباد میں پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وفاقی وزیر کی بے عزتی کرے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے سینیٹ میں داخلے پر پابندی

واضح رہے کہ چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں سینیٹ کا اجلاس ہوا تھا جس میں مختلف امور پر بحث کی گئی اسی دوران چیئرمین سینیٹ نے وزیر اطلاعات کے بیان پر اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے احتجاج پر وزیر اطلاعات کے سینیٹ میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بتایا کہ ’یہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ سینیٹ چیئرمین کس طرح اس نتیجے پر پہنچے اور رولنگ پاس کی جبکہ سینیٹ میں جو باتیں ہوئیں اس میں کوئی بات بھی غیر پارلیمانی نہیں تھی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے طنزیہ کہا کہ ’ہمیں گزشتہ حکومتوں کی جانب سے بلوچستان میں 42 ہزار کروڑ روپے خرچ کا حساب مانگنے پر معافی مانگنی چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے اجلاس میں پشتونخوا عوامی ملی پارٹی کے ایک رہنما نے بلوچستان میں فنڈز کی عدم فراہمی کا تذکرہ کیا، جس پر میں نے واضح کیا کہ گزشتہ حکومت میں 42 ہزار کروڑ روپے بلوچستان کو دیے گئے اور یہ پوچھنے کا حق تحریک انصاف کی حکومت کو ہے کہ مذکورہ پیسہ کہاں خرچ ہوا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ: وزیر اطلاعات اور مشاہدہ اللہ خان میں پھر تلخ کلامی، اپوزیشن کا شدید احتجاج

پریس بریفنگ میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان کے ساتھ معاشی دہشت گردی نہیں کی گئی؟، گزشتہ 10 برس میں جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نائب چیئرمین آصف علی زرداری کی پالیسی رہی جس میں تحریک انصاف کا کوئی دخل نہیں تھا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد اللہ نے وزیراعظم عمران خان اور میرے بارے میں انتہائی غلیظ بات کی، اس پر معافی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک پر ذمہ داری عائد کی ہے جو سینیٹ کے معاملے کا جائزہ لیں گے۔

اس موضوع کے اختتام پر ان کا کہنا تھا کہ اگر سینیٹ سمجھتی ہے کہ وفاقی کابینہ کے بغیر ان کے ’امور‘ احسن طریقے سے چلتے ہیں تو یہ پھر چیئرمین سینیٹ کی اپنی خواہش ہے۔

عافیہ صدیقی کی واپسی کیلئے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کابینہ کے اجلاس میں دیگر امور سے متعلق فیصلوں کے بارے میں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کو بیرون ملک جیلوں میں قید پاکستانیوں کی حالت زار پر شدید تشویش ہے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا فواد چوہدری کے سینیٹ میں آنے پر پابندی کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک جیلوں میں قید پاکستانیوں کو قانونی معاونت کی فراہمی حکومت کا فرض ہے۔

امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق انہوں نے واضح کیا کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہے۔

سرمایہ پاکستان کمپنی تشکیل دینے کا فیصلہ

بحران زدہ سرکاری اداروں کے بارے میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ کابینہ نے ’سرمایہ پاکستان کمپنی‘ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کا انتظامی ڈھانچہ سنگاپور اور ملائیشیا کی کمپنیوں جیسا ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ سرمایہ پاکستان کمپنی کے بورڈ آف گورننس میں تین وفاقی وزراء اورنجی شعبوں سے ماہرین پر مشتمل 7 ممبران شامل ہوں گے۔

فواد چوہدری نے بتایا کہ 153 سرکاری کمپنیوں پر ریاست کا اثر و رسوخ انتہائی کم کردیا جائے گا اور اعلیٰ قابلیت کے حامل لوگوں کو بورڈ آف گورننس میں شامل کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ایف بی آرکے 100 بڑے نادہندگان کے خلاف آپریشن کریں گے، فواد چوہدری

انہوں نے بتایا کہ سرمایہ پاکستان کمپنی تمام سرکاری کمپنیوں کے امور کا جائزہ لے کر کابینہ کو سفارشات پیش کرے گی۔

کھاد کی قیمتوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ کابینہ کو کھاد کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش ہے اور مارکیٹ میں استحکام لانے کے لیے 50 ہزار ٹن یوریا درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

میڈیا ہاؤسز کے 23 کروڑ روپے جاری کرنے کی ہدایت

میڈیا ہاوسز کے بارے میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیراعظم عمران نے وعدے کے مطابق میڈیا ہاوسز کے تقریباً 23 کروڑ روپے جاری کرنے کا ہدایت کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’میڈیا ہاؤسز کے نجی بزنس موجود ہیں لیکن انہیں اپنے بزنس ماڈل کا جائزہ لینا ہوگا اور میڈیا کے ورکز کا خیال رکھنا چاہیے‘۔

فواد چوہدری نے کہا کہ میڈیا ہاوسز کو اپنے بزنس ڈھانچے کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاہم یہ ممکن نہیں کہ میڈیا ہاؤسز سرکاری خرچے پر اپنے ادارے چلائیں۔

وزیراطلاعات نے کہا کہ میڈیا ہاوسز میں فرائض انجام دینے والے رپورٹرز اور دیگر عملہ انتہائی محدود تنخواہوں پر کام کررہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں