’پاکستان، چین کو قرض واپس کرنے سے قبل آئی ایم ایف کو ادائیگی کرے گا‘

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2018
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان حال ہی میں مذاکرات کا دور ہوا تھا—فائل فوٹو
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان حال ہی میں مذاکرات کا دور ہوا تھا—فائل فوٹو

واشنگٹن: امریکی محکمہ خزانہ نے کانگریس کو بتایا ہے کہ پاکستان، چین کو قرض کی ادائیگی سے قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ادائیگی کرے گا۔

امریکی محکمہ خزانہ کے بین الاقوامی امور کے انڈر سیکریٹری ڈیوڈ مالپاس نے ملک میں سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ چینی قرض کی ادائیگی آئی ایم ایف کو رقم کی واپسی کے بعد ہوگی‘۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کے پاس جانے کی کوئی جلدی نہیں، وزیر خزانہ

انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے نقطہ نظر سے اس رقم کو چینی رقم کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے‘ لیکن یہ امریکا کے لیے اصل تشویش کا باعث نہیں ہے بلکہ ’چیلنج یہ ہے کہ اس پروگرام کو تلاش کیا جائے جو پاکستان میں مطلوبہ اقتصادی اصلاحات کی وجہ بنے اور یہ اس سے منسلک مالی شرائط کو بچانے کی اجازت دے‘۔

ایک سینئر امریکی عہدیدار کی جانب سے مذکورہ یقین دہانی نے اس خدشے کو کم کردیا کہ پاکستان، چین اور چینی بینکوں کو قرض کی واپسی کے لیے آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض استعمال کرسکتا ہے۔

اس دوران پینل کو آگاہ کیا گیا کہ آئی ایم ایف ٹیم ممکنہ بیل آؤٹ پیکیج پر مذاکرات کے بعد پاکستان سے واپس لوٹی ہے۔

ڈیوڈ مالپاس نے کہا کہ ’جس چیز پر ہم زور دے رہے ہیں وہ قرضوں کی شفافیت سے بھرپور ہے لیکن چیلنجز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مختلف کیسز میں یہ قرض کی شرائط واضح نہیں کرتے، جیسا کہ شرح سود، اس کی پختگی اور اسے کب واپس کیا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’امریکا، اس عمل کو تبدیل کرنے کے لیے ’بہت مشکل سے پیچھے آیا‘ اور مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اپنے تحفظات پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیں: بیل آؤٹ پیکیج پر آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اختلاف برقرار

انہوں نے کہا کہ پاکستان 2013 سے اپنے دوسرے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہا ہے اور پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق قرض کی رقم 6 سے 12 ارب ڈالر کے قریب تک ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ جنوری کے وسط تک پاکستان اس معاہدے کو حتمی شکل دے گا۔

تاہم پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روز کہا تھا کہ پاکستان کو معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کوئی جلدی نہیں اور اب ہم 2 ماہ کی تاخیر برداشت کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم جلدی میں نہیں ہیں، یہاں تک کہ اگر اس میں 2 ماہ میں مزید تاخیر بھی ہوتی ہے تو ہم محفوظ ہیں‘۔


یہ خبر 29 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں