’ہم پاکستان کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں‘

اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2018
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور پریس کانفرنس کر رہے ہیں — فوٹو، ڈان نیوز
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور پریس کانفرنس کر رہے ہیں — فوٹو، ڈان نیوز

راولپنڈی: پاک آرمی کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنارہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہاں آئینِ پاکستان کے تحت قانون کی بالا دستی ہو، یہاں نہ کوئی بندہ ادارے سے بہتر ہو نہ ہی کوئی ادارہ ریاست سے بہتر ہو۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جنگیں لڑیں، قربانیاں دیں، آدھا ملک گنوایا، لیکن اس کے بعد سنبھل گئے اور ایٹمی قوت بھی بنے لیکن پھر ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی گئی جس سے معیشت خراب ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایس پی آر نے عوام کو ’جعلی کالز‘ سے متعلق خبردار کردیا

انہوں نے کہا کہ میں آج کی فوج کا ترجمان ہوں اور یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج کی افواج گزرے ہوئے کل کی فوج نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کے سپاہی سے لے کر سپاہ سالار تک اہلکاروں نے یہ دن بھی دیکھا ہے جب ان کے اپنے ساتھیوں نے ان کے ہاتھ میں اپنا دم توڑا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا پیغام سناتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’ہم پاکستان کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنارہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہاں آئینِ پاکستان کے تحت قانون کی بالا دستی ہو، یہاں نہ کوئی بندہ ادارے سے بہتر ہو نہ ہی کوئی ادارہ ریاست سے بہتر ہو‘۔

مزید پڑھیں: جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اب نازک دور سے گزر کر ایسے مقام پر آگیا ہے جہاں آگے نازک وقت نہیں ہے، یا پھر نازک سے بھی زیادہ برا وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری آپ سب سے یہی درخواست ہے کہ ہم ملک کو وہاں لے کر جائیں جہاں لے جانا اس کا حق ہے۔

’بھارت ہمیں ایسا ہی برداشت کرے جیسے ہم ہیں‘

اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے رواں سال گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ سیز فائر کی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی جو مزید جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کی جانب سے عام شہریوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم پاکستان ایسی جوابی کارروائی نہیں کرتا جس میں عام شہریوں کا قتل عام ہو۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایس پی آر نے سائبر الرٹ جاری کردیا

بھارتی آرمی چیف کے بیان، پاکستان پہلے سیکیولر ریاست بنے پھر مذاکرات کیے جائیں گے، پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کی کیا صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ کیا جاتا ہے، ان کے مذہبی مقامات کو سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے لیکن بابری مسجد کے ساتھ کیا ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے باور کروایا کہ ہم نے دوسرے مذہب کے احترام میں کرتار پور راہداری کو کھول دیا، لیکن انہوں نے اقلیتوں کے لیے کیا کیا؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، لہٰذا بھارت کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں کونسا ملک بننا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پاک-بھارت بہتر تعلقات سے 30 ارب ڈالرتک تجارت بڑھا سکتے ہیں، بھارتی ہائی کمشنر

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت خود پہلے ایک سیکیولر ملک بن جائے جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے، اور پاکستان کو ایسے ہی برداشت کرے جیسا یہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کرتارپور راہداری کھولنے سے متعلق بھی بھارت میں پاکستان کے خلاف منفی پروپگینڈا کیا جارہا ہے۔

انہوں نے یہ واضح کیا کہ کہ یہ راہداری یک طرفہ ہوگی جو بھارتی زائرین کے لیے ہوگی، پاکستان سے کوئی بھی شہری اس راہداری سے بھارت نہیں جاسکے گا۔

’لاپتہ افراد کے 7 ہزار میں سے 4 ہزار کیسز حل ہوگئے‘

خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی اضلاع میں چیک پوسٹ ہٹانے، بارودی سرنگ ہٹانے اور لاپتہ افراد سے متلعق پشتون تحفظ موونٹ (پی ٹی ایم) کے مطالبات کے حوالے سے بھی میجر جنرل آصف غفور نے بات کی۔

انہوں نے بتایا کہ جب آپ حالت جنگ میں ہوتے ہیں تو آپ کی حکمت عملی دوسری ہوتی ہے جبکہ جب بحالی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو آپ دوسرے طریقے سے سوچ رہے ہوتے ہیں۔

جنگ زدہ علاقوں میں فوجی چیک پوسٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2016 میں خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی اضلاع میں چیک پوسٹ کی تعداد 4 سو 69 تھی لیکن آج ان کی تعداد 3 سو 31 ہیں۔

مزیدپڑھیں: لاپتہ افراد کمیشن نے 3 ہزار 492 کیسز نمٹا دیئے، جسٹس (ر)جاوید اقبال

انہوں نے مزید کہا کہ جس دن فوج کو ایسا محسوس ہوگا کہ یہاں سیکیورٹی کی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ یہاں اب ایک چیک پوسٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے تو انہیں ہٹادیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی جانب سے بہت زیادہ بہتری کرلی، یہاں تعمیراتی کام کا بھی آغاز ہوگیا ہے، لیکن افغانستان کا اپنے دہشتگروں پر، سرحد پر اور سرحدی علاقوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے جس کا پاکستان کو خطرہ ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے میں 2 لاکھ فوج تعینات ہے۔

خیبرپختونخوا اور فاٹا میں بارودی سرنگ ہٹانے سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 43 ٹیمیں وہاں کام کر رہی ہیں اور انہوں نے ابھی تک 44 فیصد علاقہ بارودی سرنگوں سے کلیئر کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کی ماہانہ رپورٹ جمع، ستمبر میں 74 کیسز درج ہوئے

لاپتہ افراد کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ابتدا میں پی ٹی ایم کی جانب سے ایک فہرست آئی ہے جو تقریباً 7 سے 8 ہزار ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2011 میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا جس میں لاپتہ افراد سے متعلق شکایتوں پر سماعت ہوتی ہیں، کچھ لوگوں نے براہِ راست عدالتوں میں بھی درخواستیں دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر ان کی سماعت کر رہی ہیں، جن میں سے تقریباً 4 ہزار کیسز حل ہوچکے ہیں، اور ان میں جو کیسز حل نہیں ہوئے ان میں سے تقریباً 2 ہزار کیسز لاپتہ افراد کمیشن کے ہی پاس ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کس طرح چل رہی ہے اس کے بارے میں کسی دن بتایا جائے گا۔

مزیدپڑھیں: حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کچھ نہیں کررہی، سردار اختر مینگل

پی ٹی ایم سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ان پر اس وقت اس لیے سختی نہیں کی کیونکہ انہوں نے گزشتہ 15 سال سے جنگ دیکھی، وہ لوگ دکھی ہیں اور اس جنگ سے ان کے اپنے متاثر ہوئے ہیں۔

پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ اب تک پی ٹی ایم نے پُر تشدد کارروائیاں نہیں کی ہیں، اگر انہوں نے یہ حد عبور کی تو ان کے ساتھ وہی ہوگا جو ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے کرتی ہے۔

’پاک فوج کا احتسابی عمل سب سے مضبوط ہے‘

پاک فوج میں احتساب کے بارے میں بتایا کہ یہ منظم ادارہ ہے اور اگر یہ منظم نہیں ہوتا تو ہم نے جو گزشتہ 15 سالوں میں کارکردگی دکھائی ہے وہ یہ نہ ہوتی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ فوج میں چین آف کمانڈ اور نظم و ضبط ہے جبکہ احتساب سے متعلق ایک پوری برانچ ہے جس کی سربراہی ایک لیفٹیننٹ جنرل کرتے ہیں اور میجر جنرلز بھی شامل ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک فوج کے 6 میجر جنرلز کی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی

انہوں نے بتایا کہ اس برانچ کا کام ہی یہ ہے وہ پاکستان آرمی کا نظم و ضبط دیکھے اور احتساب کرے۔

پاک فوج کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ 2 سالوں میں 4 سو سے زائد فوجی افسران کو سزائیں دی گئیں اور یہ سزائیں احتساب کے تحت ہی دی گئیں، جن میں سروس کی معطلی اور جیل بھی شامل ہے۔

پاکستان کے مختلف حصوں میں سیکیورٹی صورتحال

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2013 میں وہاں ایک ماہ میں 6 سے 7 دہشت گرد حملے ہو جاتے تھے، تاہم اب یہ صورتحال بہتر ہے۔

بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی کوشش سے 5 ایرانی مغوی گارڈز بازیاب

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بلوچستان کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہاں فراریوں نے ہتھیار ڈالے ہیں اور گزشتہ 3 سالوں میں 2 ہزار سے زائد فراری قومی دھارے میں شامل ہوئے۔

کراچی میں دہشت گردی 99 فیصد کم ہوگئی

میجر جنرل آصف غفور نے کراچی کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں شہرِ قائد میں سیکیورٹی کی صورتحال میں بہت تیزی سے بہتر ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی میں دہشت گردی میں 99 فیصد کمی آئی ہے جس میں سندھ رینجرز، سندھ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا دہشتگردی کے خلاف جنگ کے اخراجات سے لاعلمی کا اظہار

آپریشن رد الفساد کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اب تک اس میں 44 آپریشن ہوئے ہیں جبکہ 42 ہزار سے زائد سرچ آپریشن ہوئے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان نے حکومت کے ساتھ مل کر تعمیراتی منصوبوں پر کام کیا ہے، اور ان منصوبوں کو صحافیوں نے سابق قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں دیکھا ہے۔

’پاکستان کا طالبان پر ماضی جیسا اثر و رسوخ نہیں‘

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان کا اب افغان طالبان پر وہ اثر و رسوخ نہیں ہے جیسا ماضی میں تھا، تاہم کچھ روابط استعمال کرتے ہوئے پاکستان امریکا کی مدد کرے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ افغان تنازع کبھی طاقت سے حل نہیں کیا جاسکتا۔

پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہم پر جنگ مسلط کی گئی، پاکستان میں تحریک طالبان بن گئی، اور پھر ہم نے ان کے خلاف جنگ لڑی اور کامیابی حاصل کی لیکن اب پاکستان کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا۔

میڈیا ملک کے دفاع کی پہلی لکیر

میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی طاقت ایسی ہیں جسے کوئی نہیں روک سکتا اور میڈیا ہی پانچویں جنریشن کی جنگ میں پہلی دفاعی لکیر ہے۔

انہوں نے میڈیا سے درخواست کی کہ آپ صرف 6 ماہ کے لیے پاکستان کی اچھی تصویر دکھائیں، اس کی ترقی دکھائیں پھر دیکھیں کہ پاکستان کہاں پہنچتا ہے۔

مزیدپڑھیں: یوم دفاع پر آئی ایس پی آر کا پاکستانی میڈیا کو خراج تحسین

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارے ملک میں کتنی ہی اچھی چیزیں ہیں وہ دکھائیں، اور لوگوں کو بتائیں کہ ملک میں کتنا کچھ اچھا ہوچکا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ملک میں جو کچھ ٹھیک نہیں ہورہا اسے بالکل نہ دکھائیں۔

’فوج ایک ریاستی ادارہ ہے‘

وزیرِ اعظم عمران خان کے انٹرویو پر بات کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ کوئی بھی حکومت سیکیورٹی کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ سے اس کی تجویز لیتی ہے، جس پر انہوں نے پنٹاگون کی مثال دی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج ایک ریاستی ادارہ ہے، چاہے کسی کی بھی حکومت رہی ملک میں افواج نے انہیں اپنی تجاویز دیں۔

یہ بھی پڑھیں: فوج ایک قومی ادارہ ہے، میجر جنرل آصف غفور

انہوں نے بتایا کہ ماضی کی حکومتوں نے دہشتگروں کے خلاف آپریشن سے متعلق جو بھی فیصلے کیے ان پر ان کا ساتھ دیا۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ تمام ادارے ملکی مفاد کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں